طالبان حکومت نے شطرنج کھیلنے پر سخت پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ شطرنج ایک غیر اخلاقی کھیل ہے ۔ حکام کا کہنا ہے کہ کو یہ اسلامی شریعت کے خلاف ہے لہذا اس کھیل کو جڑ سے ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ شطرنج کھیلنا جوا کھیلنے کے مترادف ہے ، اس لیے اس پر سخت پابندی لگا دی گئی ہے۔افغان حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ شطرنج کے کھیل میں شرعی طور پر قابل اعتراض پہلو پائے جاتے ہیں جنہیں دور کیے جانے تک اس کھیل کو معطل رکھا جائے گا۔
افغان اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے ترجمان عطل مشوانی نے فرانسیسی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شریعت میں شطرنج کو جوئے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے جو ہمارے اخلاقی ضابطوں کے خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ یہ قانون کے تحت ممنوع ہے ۔
کابل کے ایک مقامی کیفے کے مالک عزیزاللہ گلزارجو شطرنج کے مقابلوں کا انعقاد کرتے تھے انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل کی مصروفیات کے مواقع بہت کم ہیں جن سے وہ اپنی ذہنی تفریح حاصل کرسکیں۔ نوجوان اس کی تلاش میں شطرنج کی طرف مائل ہو رہے تھے جس وجہ سے حکومت اسے ختم کر رہی ہے ۔
ذرائع کے مطابق طالبان کی واپسی کے بعد افغانستان میں خواتین پرکھیل کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے ہیں، مختلف قسم کی تمام کھیلوں پرپابندی عائد کی جا چکی ہے۔اور اب مردوں کے کھیل بھی نشانے پر آ چکے ہیں ۔
اس سے پہلے طالبان حکومت نے مکسڈ مارشل آرٹس(MMA)کو بھی غیر شرعی قرار دے کر بند کر دیا گیا تھا۔2021 میں طالبان نے چہرے پر مکے مارنے والے کھیلوں پر پابندی کا اعلان کیا تھا جس پر ایم ایم اے سمیت بہت سارے کھیل خود بخود ختم ہوتے گئے۔
عزیز اللہ گلزار کہنا ہے کہ کھیل نوجوانوں کی تفریح کا ذریعہ ہیں ۔ کھیلنے کے بعد نوجوان خود کو ترو تازہ محسوس کرتے ہیں لہٰذا کچھ کھیل جو قانونی طور پر شرعی ہیں اُن کو متعارف کروایا جائے۔