ریاض :سعودی ولی عہدشہرادہ محمد بن سلمان نے منگل کی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پرتپاک استقبال کیا، جب وہ خلیجی ممالک کے چار روزہ تاریخی دورے پر ریاض پہنچے۔
ٹرمپ کے ہمراہ امریکہ کے سرکردہ کاروباری رہنما بھی موجود ہیں، جن میں ٹیسلا کے سی ای او اور صدر کے مشیر ایلون مسک، بلیک راک کے سی ای او لیری فنک اور سٹی گروپ کی سی ای او جین فریزر شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ سب سے پہلے سعودی دارالحکومت ریاض میں سعودی امریکہ انویسٹمنٹ فورم میں شرکت کریں گے، اس کے بعد بدھ کو قطر اور جمعرات کو متحدہ عرب امارات کا دورہ کریں گے۔
ریاض میں صدر ٹرمپ اور ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات ہوئی، جس کے دوران ذرائع کے مطابق امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کو 100 ارب ڈالر سے زائد کے جدید اسلحے کا پیکیج پیش کیے جانے کا امکان ہے، جس میں C-130 طیارے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

سفر کے دوران مشرق وسطیٰ میں اسرائیل غزہ جنگ، ایران کے ایٹمی پروگرام پر بات چیت، اور روس یوکرین تنازع جیسے اہم معاملات بھی زی غور آئیں گے۔ تاہم، فی الوقت اس دورے کا محور معاشی تعاون اور سرمایہ کاری ہے۔
سعودی عرب نے رواں سال جنوری میں امریکہ میں اگلے چار سالوں کے دوران 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا، جبکہ صدر ٹرمپ نے اس دورے میں ایک کھرب (ٹریلین) ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے مطالبے کا عندیہ دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس دورے کے دوران سعودی عرب اور امریکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے موضوع پر بات چیت سے گریز کریں گے، باوجود اس کے کہ ابراہیم معاہدوں کی توسیع صدر ٹرمپ کا ایک دیرینہ ہدف رہا ہے۔ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے مطابق کچھ عرب ممالک کے ساتھ جلد پیش رفت کی توقع ہے، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی غزہ جنگ ختم کرنے یا فلسطینی ریاست کی حمایت نہ کرنے کی پالیسی اس راہ میں رکاوٹ ہے۔
صدر ٹرمپ قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی اہم اقتصادی معاہدوں پر بات کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق قطر صدر ٹرمپ کو تحفے کے طور پر ایک پرتعیش بوئنگ 747-8 طیارہ پیش کرے گا، جسے ٹرمپ اپنی صدارت کے بعد صدارتی لائبریری کے لیے وقف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کے ہمراہ امریکی وزیر خارجہ و قومی سلامتی کے مشیر مارکو روبیو اور وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ بھی ہیں۔
یہ دورہ صدر ٹرمپ کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد دوسرا غیر ملکی دورہ ہے پہلا دورہ انہوں نے پوپ فرانسس کے جنازے کے لیے روم کیا تھا۔ اس وقت دنیا ایک نازک جغرافیائی سیاسی موڑ پرہے،اورصدر ٹرمپ کے اس دورے کو عالمی امن اورمعیشت کےلیےاہم پیش رفت قراردیاجارہا ہے