امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض پہنچ گئے ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ریاض کے شاہ خالد ائرپورٹ پر ان کا خیر مقدم کیا۔ عموماً علاقائی اور مقامی حکمران بیرونی مہمانوں کا استقبال کیا کرتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کا استقبال امیر محمد بن سلمان نے خود کیا۔
دوسری مرتبہ کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد یہ ٹرمپ کا پہلا بیرونی دورہ ہے۔ امریکی صدر اس دورے کو "تاریخی” قرار دے چکے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب خطے کو تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ ریاض اور واشنگٹن کے درمیان سکیورٹی، توانائی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تزویراتی شراکت داری قائم ہے۔
امریکی صدر کا یہ دورہ علاقائی امن کے لیے خاصی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ غزہ، یمن، شام اور اسرائیل کی حالیہ صورتحال پر صدر ٹرمپ نے تاحال کوئی بات نہیں کی ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اس دورے کے دوران سیاسی اور تجارتی معاہدوں کے علاوہ کوئی اور بات نہ کریں۔
بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ جنگوں اور اسرائیل کی وکالت سے تنگ آچکے ہیں، وہ عربوں کے ساتھ صرف تجارت اور امریکی مفادات، انویسٹمنٹ اور ترقیاتی پراجیکٹس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران متعدد امریکی صدور سعودی عرب کے تاریخی دورے کر چکے ہیں، جو دونوں ملکوں کے درمیان تزویراتی تعلقات کی مضبوطی کا ثبوت ہیں۔
صدر ٹرمپ کے حالیہ دورے کو بین الاقوامی طور پر ایک اہم دورہ قرار دیا جا رہا ہے جس میں پہلی بار اسرائیل کو پس پشت ڈال کر عربوں کے ساتھ اقتصادی میدان میں تعلقات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اسرائیل کو اُتنا نظر انداز کیا جا سکتا ہے جتنا عرب یا مسلمان ممالک چاہتے ہیں؟
یا پھر صدر ٹرمپ کوئی جادو کی ایسی چھڑی چلاسکتے ہیں کہ اسرائیل عربوں کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے فلسطین کے مقبوضہ علاقے واپس کردے اور عرب اس کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کرلیں؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔