طویل جدوجہد کے بعدشام نے اپنی نئی قیادت کے ساتھ نئے راستوں کا انتخاب کرلیا ہے۔ عرب ممالک نے بھی شام کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمام خلیجی ممالک، بالخصوص سعودی عرب اور قطر نے شام کے معاشی حالات بہتر کرنے میں کردار ادا کرنے میں مکمل دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ یہ بدلا ہوا شام ہے۔
گزشتہ رات سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں سعودی-امریکی بزنس کونسل سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد شہزاہ محمد بن سلمان کی سفارش پر شام پر سے پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا تو امیر محمد بن سلمان کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ تالیاں بجاتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔
ساتھ ہی دمشق، حلب، حمص اور ادلب میں سعودی ولی عہد کے حق میں ریلیوں کا آغاز ہوگیا۔ شامی عوام نے سعودی عرب اور شہزادہ محمد بن سلمان کا شکریہ ادا کیا۔ اس سے پہلے سعودی عرب کے کنگ سلمان ریلیف فنڈ سے اہل شام کی کثیر تعداد میں مدد کی گئی اور ورلڈ بینک کا شام کے ذمے واجب الادا قرض بھی ادا کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے حالیہ اعلان سے شام کو معاشی میدان میں آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔ شام کے بچوں کو امریکی اداروں میں تعلیم اور تاجروں کو وہاں تجارت کے مواقع میسر آئیں گے جس سے اہل شام کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا۔
یہ ایک نیا شام ہے، یہ والا شام ایک نئی سمت میں چل پڑا ہے۔ معاشی بحالی کی ترجیحات اور علاقائی استحکام و سلامتی کے حوالے سے ماضی میں عرب دنیا کے ساتھ شام کی قربت نہیں رہی تھی۔ بلکہ شام اپنی پالیسیوں کی وجہ سے خطے میں ایک تنہا ملک کے طور پر رہ گیا تھا۔
بلاشبہ یہ اقدامات ایک طویل خانہ جنگی کے اثرات سے شام کو نکالنے اور ایک مستحکم و پرامن ملک کے طور پر خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ضروری ہیں۔ سعودی عرب نے شام کو یہ بھی پیشکش کی ہے کہ وہ یورپی طاقتوں کے ساتھ بھی ان موضوعات پر تبادلہ خیال کر کے شام کے لیے راہ ہموار کرے گا۔ یورپ شام کو مزید عالمی برادری کا حصہ بنانے کے لیے پل کا کردار ادا کرے گا۔
تاریخی طور پر شام اور سعودی عرب کے درمیان گہرے ثقافتی، مذہبی اور لسانی تعلقات ہیں۔ دونوں کی تاریخ مشترکہ ہے۔ دونوں ایک زبان بولنے والے ملک ہیں، دونوں اسلامی عقیدہ کے حامل ملک ہیں اور دونوں علاقائی استحکام کے لیے باہمی اخوت کے جذبے سے سرشار ہیں۔
شام کی سعودی عرب کے ساتھ دوبارہ جڑنے کی خواہش اس تبدیلی کی غمازی ہے جو شام کی خارجہ پالیسی میں زیادہ عملیت پسندی کو ظاہر کرتی ہے۔ بشار الاسد کی حکومت ایران کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی اور عرب پڑوسیوں کے ساتھ دوری کے رشتے میں تھی۔ اس وجہ سے ایک لمبے عرصے تک سفارتی کشیدگی رہی۔
لیکن اب ریاض کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی شامی کوشش اس خواہش کا اظہار ہے کہ وہ عرب لیگ میں دوبارہ سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف شام کے لیے بہت فائدہ مند ہوگی بلکہ پورے علاقے کے لیے بھی اور عرب ریاستوں کی ہم آہنگی کے لیے بھی مفید تر ہوگی۔