ریاض:سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن اور استحکام کے لیے ایک نئے عزم کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ معاہدہ ضرور کرنا چاہتا ہے، مگر اس کے لیے شرط ہے کہ ایران دہشتگردی کی سرپرستی بند کرے اور جوہری ہتھیاروں کے حصول سے مکمل اور قابلِ تصدیق دستبرداری اختیار کرے۔
غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق گلف سمٹ سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر ہم چند شدت پسند عناصر کی جارحیت کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں تو مشرق وسطیٰ کے لیے حیرت انگیز ترقی اور مواقع کا دروازہ کھل سکتا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے خطاب میں سابق صدر جو بائیڈن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایران اور اس کے پراکسی گروہوں کو طاقتور بنایا جبکہ اپنے خلیجی اتحادیوں کو نظر انداز کیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا
وہ دن گزر چکے جب امریکہ اپنے دوستوں کو تنہا چھوڑتا تھا، میری وفاداریاں مشرق وسطیٰ کے امن پسند اور ترقی خواہ ممالک کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ ابراہم معاہدے میں جلد مزید ممالک شامل ہوں گے، جو خطے میں امن کے فروغ اور اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کی راہ ہموار کریں گے۔
سابق صدر نے غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام ایک محفوظ اور باوقار مستقبل کے حق دار ہیں، تاہم غزہ کے رہنماؤں کی جانب سے جاری حملے اس ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
انہوں نے خلیجی ممالک، بالخصوص جی سی سی رہنماؤں کے اس تنازع کے خاتمے میں ادا کیے گئے تعمیری کردار کو سراہا اور امریکی-اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کی رہائی میں ان کے تعاون پر شکریہ ادا کیا۔
ٹرمپ نے خطاب کے اختتام پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا ریاض میں شاندار میزبانی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ساتھ گزارے گئے دن میرے لیے اعزاز تھے، ان شاء اللہ یہ ملاقاتیں دوبارہ اور بار بار ہوں گی
یہ خبر مشرق وسطیٰ کی موجودہ جغرافیائی سیاست، امریکہ کے مستقبل کے عزائم اور خطے میں قیامِ امن کی کوششوں پر روشنی ڈالتی ہے، جس میں ٹرمپ کا پیغام واضح، جارحانہ اور سفارتی حکمت عملی سے بھرپور نظر آتا ہے
۔