اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف کی حالیہ پیشکش کے بعد حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ یہ پیشرفت ایک اہم سیاسی موڑ کی نشاندہی کرتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب ملک میں سیاسی مفاہمت کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔
باخبر ذرائع کے مطابق، عمران خان نے پیر کے روز اڈیالہ جیل میں پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان سے ملاقات کی، جس دوران انہوں نے حکومت سے بات چیت کرنے کی اجازت دی۔ تاہم، عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ یہ مذاکرات ٹی وی کیمروں اور میڈیا کی چکاچوند سے دور ہونے چاہئیں تاکہ اس عمل کو بامعنی اور نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔
پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی اب باضابطہ طور پر حکومت کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے رجوع کرے گی، اور ان کا ماننا ہے کہ ماضی میں میڈیا کی اسکروٹنی کی وجہ سے ہونے والی مذاکرات کی کوششیں ناکام ہوئیں۔ اس بار وہ زیادہ محتاط اور توجہ کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کے ایک نئے موڑ میں، وزیر اعظم شہباز شریف نے حالیہ قومی اسمبلی خطاب میں پی ٹی آئی کو قومی مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔ بیرسٹر گوہر علی خان نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا، مگر ساتھ ہی واضح کر دیا تھا کہ عمران خان کی رضا مندی کے بغیر کوئی پیشرفت ممکن نہیں۔
جب دی نیوز نے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان سے اس حوالے سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وزیراعظم کی پیشکش عمران خان تک پہنچا دی گئی ہے۔ تاہم، وہ اس بات چیت کی تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ "میں یہ نہیں بتا سکتا کہ ہمارے درمیان کیا بات چیت ہوئی۔”
پی ٹی آئی کے ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ ان مذاکرات کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہو۔ ایک ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ عمران خان اس عمل کو آسان بنانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے سے ملاقات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب بھارت کی طرف سے حالیہ غلط مہم جوئی کے بعد ملک میں سیاسی مفاہمت اور قومی یکجہتی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے درمیان، عمران خان نے حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے راستہ کھولا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں اس وقت کئی بڑے سوالات ہیں: کیا یہ پس پردہ بات چیت ایک بریک تھرو کی طرف لے جائے گی؟ یا یہ محض ایک وقتی سیاسی پیشرفت ہوگی؟ اس کے نتیجے میں ملکی سیاست میں کیا تبدیلیاں آئیں گی، یہ وقت ہی بتائے گا۔ تاہم، یہ بات واضح ہے کہ عمران خان اور حکومت کے درمیان ممکنہ مذاکرات ملک کی سیاسی سمت کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس پیشرفت سے نہ صرف پی ٹی آئی کے حمایتیوں میں امید کی کرن دکھائی دیتی ہے، بلکہ یہ ان لوگوں کے لیے بھی ایک اہم لمحہ ہو سکتا ہے جو ملک میں سیاسی استحکام کی توقع رکھتے ہیں۔
آگے بڑھتے ہوئے، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا یہ مذاکرات کسی مثبت نتیجے کی طرف گامزن ہوں گے یا پھر یہ بات چیت بھی پہلے کی طرح میڈیا کی چکاچوند میں گم ہو جائے گی۔ اب تک کی صورت حال سے یہ واضح ہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے کئی سیاسی، فوجی اور عوامی سطح پر اتفاقات کی ضرورت ہوگی۔ یہ سیاسی کھیل اب ایک نئی اور دلچسپ پیچیدگی اختیار کرتا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ آنے والے دنوں میں سامنے آئے گا