بھارت اور پاکستان کے تعلقات ایک بار پھر شدید تناؤ کا شکار ہو چکے ہیں، اور اس بار وجہ پانی کا مسئلہ ہے۔ ایک ایسا مسئلہ جو ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان دہائیوں سے کسی نہ کسی شکل میں تنازع کا سبب بنتا رہا ہے۔ تازہ کشیدگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب اپریل 2025 کے آخر میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک پرتشدد واقعے میں 26 افراد کی ہلاکت ہوئی۔
بھارت نے فوری طور پر اس واقعے کا الزام پاکستان پر دھر دیا، جس پر پاکستان نے نہ صرف اس سے مکمل لاتعلقی ظاہر کی بلکہ غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش بھی کی۔
مگر نئی دہلی نے اس تجویز کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی اور دوطرفہ معاہدوں میں سب سے اہم سمجھے جانے والے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔
یہ معاہدہ 1960 میں دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت کے عالمی بینک کی معاونت سے طے پایا تھا، جس کے تحت دریاؤں کا باضابطہ بٹوارہ کیا گیا۔ پاکستان کو دریائے سندھ، چناب اور جہلم کا اختیار دیا گیا جبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کا کنٹرول ملا۔ مگر اب، بھارت کا مؤقف ہے کہ موجودہ حالات میں وہ اس معاہدے پر مزید عملدرآمد نہیں کرے گا۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پہلگام واقعے کے بعد اپنے حکام کو ہدایات جاری کیں کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر فوری طور پر نئے منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ پاکستان پر پانی کا دباؤ بڑھایا جا سکے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے جس منصوبے پر تیزی سے کام کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، اس میں دریائے چناب پر موجود ایک پرانی نہر رنبیر کنال کو وسعت دینے کا منصوبہ شامل ہے۔ یہ نہر انگریز دور حکومت میں، یعنی 19ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی، اور اب بھارت اس کی لمبائی کو تقریباً 120 کلومیٹر تک دوگنا کرنے پر غور کر رہا ہے۔
اس منصوبے سے متعلق معلومات رکھنے والے چار مختلف سرکاری ذرائع کے مطابق، اگر یہ نہر توسیع پا جاتی ہے تو بھارت کو پانی حاصل کرنے کی موجودہ اجازت شدہ مقدار یعنی 40 کیوبک میٹرز سے بڑھا کر 150 کیوبک میٹرز یومیہ تک پانی حاصل کرنے کی گنجائش حاصل ہو جائے گی۔
اگرچہ اس نہر کی تعمیر میں کئی سال لگ سکتے ہیں، تاہم بھارتی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ اسے تیز رفتاری سے مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
رنبیر کنال کے اس منصوبے پر گفتگو گزشتہ ماہ سے جاری ہے اور پہلگام واقعے کے بعد شروع ہونے والی چار روزہ جھڑپوں کے باوجود اس منصوبے پر پیش رفت جاری ہے۔
بھارتی حکام نے اگرچہ اس معاملے پر باضابطہ طور پر کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ہے، مگر برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے دعویٰ کیا ہے کہ متعلقہ بھارتی وزارتیں اس حوالے سے سوالات کے جواب دینے سے انکار کر چکی ہیں۔
تاہم وزیر اعظم نریندر مودی نے حالیہ دنوں میں ایک تقریر کے دوران واضح طور پر کہا تھا کہ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے جو اس بات کی علامت ہے کہ بھارت پانی کے مسئلے کو ایک اسٹریٹجک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔
اس کے علاوہ بھارت کے وزیرِ آبی وسائل سی آر پٹیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ وزیراعظم کے واضح احکامات کے بعد ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ پانی کا ایک قطرہ بھی بھارت سے باہر نہ جائے۔
ان کا یہ بیان پاکستان کے لیے ایک کھلی وارننگ تصور کیا جا رہا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی، تجارتی، اور فضائی روابط تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس معاہدے کی معطلی کو نہ صرف غیرقانونی قرار دیا بلکہ نئی دہلی کو یہ پیغام بھیجا کہ اگر بھارت نے پاکستان کے پانی کو روکا یا بہاؤ میں رکاوٹ ڈالی تو اسلام آباد اسے اعلان جنگ کے مترادف سمجھے گا۔

پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ اقوام متحدہ کی ضمانت کے تحت طے پایا تھا، جسے یکطرفہ طور پر معطل کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
واشنگٹن میں موجود تھنک ٹینک "سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز” کے پانی سے متعلق امور کے ماہر ڈیوڈ مائیکل کے مطابق پاکستان کی زراعت کا 80 فیصد انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت ان دریاؤں پر نہری نظام، ڈیم یا کسی بھی قسم کی انجینئرنگ کے ذریعے پانی کے بہاؤ میں مداخلت کرتا ہے تو اسے کئی سال درکار ہوں گے، تاہم اس کے باوجود ایسے اقدامات پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے خطرناک اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
روئٹرز کی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے مئی کے مہینے میں دریائے سندھ پر جاری مرمتی کام کے نام پر جو کارروائیاں کی گئیں، ان کے نتیجے میں پاکستان میں آنے والے پانی کی مقدار میں 90 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔ یہ ایک تشویشناک پیش رفت ہے، جس نے پاکستان کے آبی ماہرین اور کسانوں کو گہری پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
پانی کے اس تنازع نے پاک بھارت تعلقات کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں بات چیت کا دروازہ بند ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی سفارتی عملے کو محدود کر دیا گیا ہے، تمام پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کیے جا چکے ہیں، یہاں تک کہ وہ بچے بھی جنہیں علاج کے لیے بھارت لے جایا گیا تھا، انہیں بھی وطن واپس بھیج دیا گیا۔
جواباً پاکستان نے بھی بھارتی سفارتی عملے پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں، بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارتی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں، اور بھارتی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہے۔ صرف سکھ یاتریوں کو اس پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔
یہ صورتحال ایک نئے بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں بھی تناؤ دیکھنے میں آتا رہا ہے، مگر اس مرتبہ معاملہ ایک ایسے قدرتی وسیلے یعنی پانی پر ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔
بھارت کی طرف سے دریاؤں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کو پاکستان اپنے وجود کے خلاف حملہ سمجھتا ہے، اور اگر حالات یونہی بگڑتے رہے تو یہ تنازعہ کسی بھی وقت بڑی جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ عالمی برادری کی خاموشی اس خطرے کو مزید بڑھا رہی ہے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے فوری طور پر مداخلت کریں تاکہ جنوبی ایشیا کو کسی نئے تباہ کن تصادم سے بچایا جا سکے۔