اسلام آباد: جنوبی ایشیا کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی کشیدگی ابھر رہی ہے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی اندرونی صورتحال شدید دباؤ میں ہے اور نریندر مودی حکومت اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی بڑا عسکری یا سیاسی ایڈونچر کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی اپنی ذاتی ٹریجڈی کو پورے جنوبی ایشیا کی ٹریجڈی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کو محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
حامد میر کے مطابق بھارت اس وقت اندرونی خلفشار، معیشتی زوال، اور عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ بی جے پی حکومت دباؤ میں ہے اور بھارتی میڈیا اس دباؤ کو عوامی جذبات سے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں کسی بھی جارحانہ اقدام کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری طرف بین الاقوامی منظرنامے میں بھی بڑی تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے غیر معمولی دورے اور شام پر عائد پابندیاں ہٹانے کے اعلان نے اسرائیل سمیت کئی اتحادیوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے ترکیہ کو 300 ملین ڈالر مالیت کے جدید میزائل فراہم کرنے کی منظوری دی ہے، جس پر بھارتی میڈیا اور بی جے پی رہنماؤں کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
بھارت نے ترکیہ اور آذربائیجان پر سوالات اٹھانے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ بھارتی میڈیا میں اس وقت ایک عجیب قسم کی "غداری مہم” جاری ہے جس میں یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کون سیاستدان یا فلمی ستارہ ترکیہ میں چھٹیاں گزارنے گیا، کس جماعت کا دفتر ترکیہ میں ہے، اور کس نے صدر اردوان سے ملاقات کی۔ یہ صورت حال خود بھارت کے اندر سیاسی تقسیم اور غیر یقینی کو ظاہر کرتی ہے۔
معروف اینکر پرسن شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے مودی کو یاد دلایا ہے کہ وہ کبھی ٹرمپ کو اپنا قریبی دوست کہتے تھے۔ لیکن اب جبکہ ٹرمپ ترکیہ کی حمایت کر رہے ہیں، بھارت کی قیادت کو سخت شرمندگی کا سامنا ہے۔ بھارتی میڈیا اس تضاد پر پردہ ڈالنے کے لیے جذباتی پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے لیے یہ وقت انتہائی اہم ہے۔ ملک کو داخلی استحکام کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی فعال سفارت کاری کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کی ممکنہ مہم جوئی کو عالمی سطح پر بےنقاب کیا جاسکے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر مؤثر آواز بلند کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔
نتیجتاً، عالمی منظرنامے میں امریکہ کی نئی پالیسی، ترکیہ کو ہتھیاروں کی فراہمی، اور اسرائیل کی ناراضی جیسے عوامل بھارت کو غیر یقینی اور تنہا راستے پر دھکیل رہے ہیں۔ ایسے میں مودی حکومت کسی بھی غیر روایتی یا جارحانہ قدم کے ذریعے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اس نازک مرحلے پر جنوبی ایشیائی ممالک کو دانشمندی، تدبر اور پیش بینی سے کام لینا ہو گا تاکہ خطے کا امن برقرار رہ سکے