چین کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں تعمیر ہونے والے مہمند ڈیم کی تعمیراتی سرگرمیوں کو تیز کر دیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بھارت کی جانب سے پاکستان کو پانی کی فراہمی روکنے کی دھمکیوں کے بعد دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
چین کا یہ اعلان نہ صرف پاکستان کے ساتھ اس کی تزویراتی شراکت داری کی علامت ہے بلکہ یہ خطے میں پانی کی بنیاد پر ابھرتے ہوئے جیوپولیٹیکل منظرنامے کی بھی ایک اہم جھلک ہے۔
مہمند ڈیم، جو دریائے سوات پر واقع ہے، کو پاکستان کے لیے ایک "فلیگ شپ” یا نمائندہ منصوبے کی حیثیت حاصل ہے، جو کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا بھی ایک اہم جزو ہے۔ یہ منصوبہ چینی حکومت کے عالمی ترقیاتی منصوبے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کے تحت شامل ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے، توانائی اور مواصلاتی رابطوں کو فروغ دینا ہے۔
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے "سی سی ٹی وی” نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مہمند ڈیم پر کنکریٹ بھرنے کا مرحلہ مکمل کر لیا گیا ہے، جو تعمیراتی عمل کا ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔
اس کے بعد اب تعمیراتی کام ایک تیز تر اور اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جو منصوبے کی جلد تکمیل کی طرف اشارہ ہے۔ یاد رہے کہ اس ڈیم کی تعمیر کا آغاز 2019 میں ہوا تھا اور اسے مکمل کرنے کی ابتدائی تاریخ 2026 مقرر کی گئی تھی، مگر حالیہ تیزی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی تکمیل قبل از وقت ممکن ہو سکتی ہے۔
اس ڈیم کا بنیادی مقصد پاکستان میں پانی کی فراہمی، زرعی زمینوں کی آبپاشی، بجلی کی پیداوار، اور شہری علاقوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کو بہتر بنانا ہے۔
منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد یہ روزانہ 300 ملین گیلن پانی پشاور شہر کو فراہم کرنے کی صلاحیت رکھے گا جبکہ 800 میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرے گا، جو پاکستان کے توانائی بحران کے حل میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اس کے علاوہ، یہ ڈیم مون سون کے موسم میں آنے والے ممکنہ سیلابوں پر قابو پانے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی قلت ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بھی اس جانب مسلسل توجہ دلاتے رہے ہیں کہ اگر پاکستان نے آبی ذخائر کے نئے منصوبے بروقت مکمل نہ کیے تو آئندہ چند دہائیوں میں ملک کو شدید آبی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مہمند ڈیم جیسے منصوبے نہ صرف ملک کی موجودہ ضروریات کو پورا کریں گے بلکہ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کریں گے۔
اس منصوبے کی رفتار میں تیزی اس وقت دیکھی گئی جب بھارت نے مبینہ طور پر ورلڈ بینک کی ثالثی سے قائم کیے گئے انڈس واٹر ٹریٹی کو یک طرفہ طور پر معطل کر دیا۔
یہ معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے کیا گیا تھا۔ بھارت کی طرف سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کو عالمی ماہرین نے خطے کے استحکام کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔
بھارتی اقدامات کے جواب میں چین نے نہ صرف مہمند ڈیم پر کام تیز کیا بلکہ اپنی سفارتی زبان میں واضح کیا کہ وہ پاکستان کی آبی خودمختاری کے تحفظ میں اس کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ اعلان ایک واضح پیغام ہے کہ چین اور پاکستان کی شراکت داری محض تجارتی یا ترقیاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ ایک گہری تزویراتی ہم آہنگی پر مبنی ہے۔
مہمند ڈیم کے علاوہ، چین اور پاکستان دیگر اہم منصوبوں میں بھی شراکت داری کر رہے ہیں، جن میں دیامر بھاشا ڈیم بھی شامل ہے۔ اس منصوبے کو بعض مبصرین پاکستان کا "تھری گورجز” پروجیکٹ بھی کہتے ہیں، جو چین کا دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈروپاور منصوبہ تھا۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل سے بھی پاکستان کو طویل مدتی آبی اور توانائی تحفظ حاصل ہوگا۔
چینی حکومت کے اس اعلان کو دنیا بھر کے مبصرین نے جنوبی ایشیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے کے تناظر میں دیکھا ہے۔ پانی کو اب ایک تزویراتی ہتھیار تصور کیا جا رہا ہے، اور چین کا کردار اس ہتھیار کو متوازن رکھنے میں کلیدی بن رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو پانی کے ذریعے دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی تو چین نہ صرف سفارتی طور پر بلکہ عملی تعاون کے ذریعے بھی پاکستان کا ساتھ دے گا۔
عوامی سطح پر بھی مہمند ڈیم کو ایک امید کی کرن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔خیبرپختونخوا کے عوام اس منصوبے کی جلد تکمیل کے خواہاں ہیں کیونکہ اس کے ذریعے نہ صرف ان کی زراعت کو سہارا ملے گا بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
چینی کمپنیوں کی موجودگی نے مقامی مزدوروں، انجینئروں اور ٹیکنیکل اسٹاف کے لیے روزگار کے دروازے کھول دیے ہیں۔
اس سب کے ساتھ، حکومت پاکستان کی بھی یہ کوشش ہے کہ ایسے منصوبوں کو عالمی اداروں کے ساتھ شفاف انداز میں مکمل کیا جائے تاکہ ان کی پائیداری اور شفافیت پر کوئی سوال نہ اٹھے۔
سی پیک اتھارٹی، واپڈا، اور دیگر ادارے اس منصوبے کی نگرانی کر رہے ہیں تاکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق کام مکمل ہو۔
مختصراً، مہمند ڈیم پاکستان کے لیے محض ایک تعمیراتی منصوبہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک اثاثہ ہے جو ملکی سالمیت، توانائی کے تحفظ، اور آبی خودمختاری کی ضمانت فراہم کرے گا۔
چین کی طرف سے اس منصوبے میں تیزی لا کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دونوں ممالک ہر قسم کے دباؤ کے خلاف متحد ہیں اور ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے پانی کی بنیاد پر امن اور ترقی کی نئی راہیں کھولنے کا سبب بن سکتا ہے۔