واشنگٹن/ماسکو :دنیا کی نظروں میں امید کی ایک کرن اس وقت ابھری جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان دو گھنٹے طویل، تفصیلی اور ’تعمیری‘ ٹیلیفونک گفتگو کے بعد ایک غیرمعمولی اعلان سامنے آیا: روس اور یوکرین جنگ بندی اور مکمل امن کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار ہو چکے ہیں۔
یہ فون کال کوئی عام سفارتی رابطہ نہیں بلکہ ایک ممکنہ تاریخ ساز لمحہ تھا۔ ٹرمپ نے اس گفتگو کو "انتہائی مثبت” قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن کے اصول و ضوابط وہ خود طے کریں گے – ایک ایسا بیان جو واشنگٹن اور ماسکو کی سیاسی فضا میں ہلچل مچا رہا ہے۔
تاہم سفارتی بیانات سے قطع نظر، میدان جنگ میں فی الحال گولیوں کی زبان بند ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ٹرمپ سے ہونے والی اپنی الگ ون آن ون کال میں جنگ بندی کی خواہش دہراتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر روس نے سنجیدگی نہ دکھائی، تو سخت تر پابندیاں ناگزیر ہوں گی۔
زیلنسکی نے واضح کیا کہ یوکرین سے متعلق کوئی بھی فیصلہ، یوکرین کی شمولیت کے بغیر، ناقابل قبول ہے۔ یہ ہمارے اصولوں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے امن یادداشت کے مجوزہ خدوخال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک کوئی تفصیلات موصول نہیں ہوئیں، لیکن جیسے ہی روس کی جانب سے کوئی پیشکش آئی، یوکرین اپنی حکمت عملی وضع کرے گا۔
دوسری جانب پیوٹن نے سوچی شہر میں ایک موسیقی اسکول کے دورے کے دوران گفتگو کو "کھری، معلوماتی اور تعمیری” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روس ایک مفاہمتی یادداشت پر کام کرنے کے لیے تیار ہے، جس میں جنگ بندی کی ٹائم لائن، امن معاہدے کے نکات اور دیگر شرائط شامل ہوں گی۔
صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ‘ٹروتھ سوشل’ پر لکھا کہ روس اور یوکرین فوری طور پر جنگ بندی اور اس سے بھی بڑھ کر، مکمل امن کے لیے مذاکرات کا آغاز کریں گے۔
تاہم وائٹ ہاؤس میں بعد ازاں ایک تقریب میں ٹرمپ نے وضاحت کی کہ اگر فریقین سنجیدگی نہ دکھائیں تو امریکہ ثالثی کے کردار سے پیچھے بھی ہٹ سکتا ہے۔ میرے ذہن میں ایک ریڈ لائن ہے۔ اگر وہ عبور ہوئی، تو ہم مزید دباؤ نہیں ڈالیں گے۔
روس کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور یوری اوشاکوف نے بتایا کہ فی الحال جنگ بندی کی کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی، مگر ٹرمپ جلد معاہدہ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ تمام بیانات اپنی جگہ، لیکن اصل امتحان آنے والے دنوں میں ہوگا،جب دنیا دیکھے گی کہ کیا واقعی یوکرین اور روس، ایک خونی باب کو بند کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں یا یہ صرف سفارتی شعبدہ بازی ہے۔