اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایک نہایت تشویشناک انتباہ جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر فوری طور پر غزہ میں امدادی رسد کی اجازت نہ دی گئی تو اگلے 48 گھنٹوں میں تقریباً 14 ہزار نومولود بچے زندگی کی بازی ہار سکتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ انسانی ہمدردی کے افسر ٹام فلیچر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے غزہ کی صورتحال کو قیامت خیز قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں پانچ امدادی ٹرکوں کی فراہمی اگرچہ ایک مثبت قدم ہے، مگر یہ ایک سمندر میں قطرے کے مترادف ہے، جبکہ غزہ کی 23 لاکھ آبادی کو زندہ رہنے کے لیے فوری اور مسلسل امداد درکار ہے۔
اسی دوران، عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے خبردار کیا کہ غزہ میں دو ملین سے زائد انسان بھوک کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہزاروں ٹن خوراک بارڈر پر روکی گئی ہے جبکہ اندر لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔
ان بیانات نے دنیا بھر میں ایک شدید ردِعمل کو جنم دیا ہے، اور اسرائیلی محاصرے اور عسکری کارروائیوں کے خلاف عالمی برادری کی ناراضی میں مزید شدت آ گئی ہے۔
برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کے سربراہان نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کی کارروائیوں کو نہایت سنگین اور ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اگر غزہ میں موجودہ صورتحال جاری رہی تو مشترکہ سفارتی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کی یہ کوشش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب انسانی بحران اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔
اسی اثنا میں، اسرائیلی فوج نے خان یونس کے رہائشیوں کو فوری انخلاء کا حکم دیا ہے۔ فوج کے مطابق وہ علاقے میں "بے مثال کارروائی” کرنے جا رہی ہے جس کا مقصد حماس کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانا ہے۔ اس اعلان کے بعد ہزاروں فلسطینی علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں اور شدید خوف و ہراس کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔
غزہ میں موجود اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک شخص پہلے ہی بھوک کی شدید ترین حالت سے گزر رہا ہے، جبکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر فوری طور پر خوراک کی فراہمی شروع نہ ہوئی تو تقریباً ایک چوتھائی آبادی قحط کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اپنے ایک بیان میں کہا: غزہ میں ہر شخص بھوکا ہے۔ اگر فوری اقدام نہ کیا گیا تو ناقابلِ تصور انسانی سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔
اس تمام تر دباؤ کے جواب میں، اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ اسرائیل ایک بنیادی مقدار میں خوراک غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے گا۔
تاہم اگلے ہی روز انہوں نے برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کی تنقید پر سخت ردعمل ظاہر کیا، اور ان ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے مؤقف کی حمایت کریں۔ نیتن یاہو نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے مغربی ممالک کو مشورہ دیا کہ وہ اسی انداز میں اسرائیل کی پشت پناہی کریں۔
زمینی حقائق روز بروز بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ غزہ کی شہری دفاعی ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ منگل کے روز اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 44 افراد جاں بحق ہوئے۔
الجزیرہ کے مطابق ان حملوں میں ایک دوا ساز تجربہ گاہ بھی نشانہ بنی۔ صرف پچھلے ایک ہفتے کے دوران، سینکڑوں افراد جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، ہلاک ہو چکے ہیں کیونکہ اسرائیلی فوجی مہمات کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
یہ تنازع اب ایک انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جہاں انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے فوری، بلا رکاوٹ اور بھرپور امدادی رسائی ناگزیر بن چکی ہے۔
اقوامِ متحدہ، عالمی ادارہ صحت، اور دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیمیں مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں کہ خوراک، پانی، دوائیں اور دیگر بنیادی ضروریات کی رسد کو فوری طور پر غزہ میں داخل ہونے دیا جائے تاکہ اس ممکنہ قحط اور بڑے پیمانے پر انسانی جانی نقصان کو روکا جا سکے۔
غزہ کے عام شہری، جن میں بزرگ، خواتین اور بچے شامل ہیں، اس وقت نہ صرف بمباری کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ انہیں خوراک، صاف پانی، اور طبی سہولیات کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے۔
بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں، جبکہ اسپتالوں کے پاس نہ دوا ہے نہ ایندھن۔ انسانی المیے کی یہ شکل دنیا کی بے حسی پر ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
موجودہ بحران کی سنگینی اور اقوامِ متحدہ کی تازہ ترین وارننگ نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ٹام فلیچر کے الفاظ میں، ہم اگر اب بھی خاموش رہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ یہ صرف ایک جنگی تنازع نہیں، بلکہ انسانیت کے امتحان کا وقت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ محض پانچ امدادی ٹرک پوری آبادی کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتے۔ ہمیں بڑی سطح پر اور تیزی سے امداد فراہم کرنی ہو گی۔