امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جنوبی افریقہ کے صدر سائرل رامافوس کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات ایک بار پھر تنازع کا باعث بن گئی، جو فروری میں ٹرمپ کی یوکرینی صدر کے ساتھ جھڑپ کی یاد دلاتی ہے۔
اس ملاقات کے دوران ٹرمپ نے جنوبی افریقہ میں سفید فاموں کے خلاف ہونے والی نسل کشی اور زمینوں پر قبضے کے الزامات اٹھائے، جس پر رامافوس نے سختی سے ان دعووں کی تردید کی۔
جنوبی افریقہ میں تشویشناک حد تک قتل کے واقعات میں زیادہ تر سیاہ فام افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اس حوالے سے رامافوس نے ٹرمپ کو واضح کیا کہ اگر واقعی سفید فاموں کے ساتھ زیادتی ہوتی تو آج یہاں تین سفید فام گالف کھلاڑی موجود نہ ہوتے جن میں ایرنی ایلس، ریتیف گوسن اور ارب پتی جوہان روپرٹ شامل ہیں۔
صدر رامافوس کی یہ آمد امریکی تعلقات میں بہتری کی امید کے طور پر دیکھی جا رہی تھی، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ ٹرمپ نے جنوبی افریقہ کے لیے امداد کو منسوخ کیا تھا اور سفید فام افریقی باشندوں کو پناہ دینے کی پیشکش کے علاوہ جنوبی افریقہ کے سفیر کو بھی ملک بدر کیا تھا۔ مزید برآں، ٹرمپ نے اسرائیل پر نسل کشی کا مقدمہ دائر کرنے پر بھی جنوبی افریقہ پر شدید تنقید کی تھی۔
یہ ملاقات اس موقع پر ہوئی جب جنوبی افریقہ کے صدر ایک جارحانہ رویہ اپنانے کی تیاری کے ساتھ آئے تھے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی گالف ٹیم کے معروف کھلاڑیوں کو بھی ساتھ لایا تھا تاکہ تجارتی معاملات پر بات چیت کی جا سکے۔ یاد رہے کہ جنوبی افریقہ کو امریکہ کی جانب سے عائد کیے گئے 30 فیصد ٹیرف کا بھی سامنا ہے، جسے عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے۔
اوول آفس میں گفتگو کے دوران ٹرمپ نے سفید فاموں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور ایک ویڈیو بھی دکھائی، جس میں سفید صلیبیں تھیں جنہیں انہوں نے سفید فاموں کی قبروں کے طور پر پیش کیا۔
اس ویڈیو میں اپوزیشن رہنماؤں کی متنازع تقاریر بھی شامل تھیں، جن میں سے ایک جولیس ملیما کے بارے میں ٹرمپ نے کہا کہ انہیں گرفتار کیا جانا چاہیے۔ ویڈیو ستمبر 2020 کی تھی، جس میں کسانوں کے قتل کے خلاف احتجاج دکھایا گیا تھا، اور مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ ان کسانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں جنہیں برسوں سے قتل کیا جا رہا ہے۔
ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ ’ہمارے ملک میں ایسے کئی لوگ ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اور وہ امریکہ کی طرف آ رہے ہیں۔‘
انہوں نے سفید فام کسانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ جنوبی افریقہ سے فرار ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور ان کو قتل کیا جا رہا ہے۔‘ اس کے جواب میں رامافوس نے کہا کہ زیادہ تر قتل سیاہ فام افراد کا ہوتا ہے، اور کسان سفید فام نہیں ہیں۔ تاہم، ٹرمپ نے ان کی بات کاٹ کر کہا کہ ’کسان سیاہ فام نہیں تھے۔‘
صدر رامافوس ملاقات کے دوران زیادہ تر خاموش اور توجہ مرکوز نظر آئے، چند بار گردن کھجاتے اور سکرین پر دیکھی جانے والی ویڈیو پر غور کرتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ویڈیوز اور تصاویر انہیں پہلے نہیں دکھائی گئیں اور وہ ان کی اصل جگہ اور حقائق جاننے کی کوشش کریں گے۔
یہ ملاقات مجموعی طور پر انتہائی ناخوشگوار رہی، جس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ جنوبی افریقہ کی تاریخ میں نسل پرستی کی تلخ وراثت ہے، جس کی وجہ سے ملک میں سیاہ فاموں کے خلاف امتیازی سلوک رائج رہا ہے۔
1994 میں نیلسن منڈیلا کی قیادت میں کثیر الجماعتی جمہوریت کے قیام کے باوجود، مسائل برقرار ہیں۔ ٹرمپ اور رامافوس کی اس ملاقات نے نہ صرف امریکہ اور جنوبی افریقہ کے تعلقات میں سرد مہری کو ظاہر کیا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے تناؤ کی بھی عکاسی کی۔