اسلام آباد : پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان حالیہ سہ فریقی مذاکرات کے نتیجے میں چین نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) اور چائنا-پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) کے دائرہ کار میں شامل کیا جائے گا۔ پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ "سی پیک ٹو” منصوبے کو افغانستان تک توسیع دی جائے گی، جو پورے خطے کی معیشت اور جغرافیائی روابط کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ ازبکستان اور پاکستان کے درمیان ریلوے لائن کی دستاویزی تیاری مکمل ہو چکی ہے، جو افغانستان سے ہوتے ہوئے خرلاچی بارڈر کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو گی۔ چین نے اس ریلوے منصوبے کی مالی معاونت کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پشاور سے کابل تک ہائی وے کی تعمیر کا اعلان بھی کیا گیا ہے، جو وسط ایشیائی ریاستوں کو گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں سے جوڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک ون میں توانائی کے منصوبے شامل تھے، جبکہ سی پیک ٹو میں ریلوے، ہائی ویز اور بندرگاہوں کی تعمیر شامل ہے۔ کراچی تا پشاور ایم ایل ون منصوبے پر چین کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جبکہ قراقرم ہائی وے کی ری الائنمنٹ بھی اس کا حصہ ہے۔ مانسہرہ سے چلاس تک 235 کلومیٹر سڑک کی تعمیر اور گوادر پورٹ کی اپ گریڈیشن جیسے منصوبے بھی شامل ہیں۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے سی پیک کی افغان توسیع کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ملک کے معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے نیا در کھولنے والا قدم قرار دیا ہے۔ افغان چیمبر آف کامرس نے بھی اسے مثبت پیش رفت کہا ہے، جس سے لیتھیم اور دیگر نایاب معدنی وسائل کی عالمی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو گی۔
تاہم، افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں اور طالبان حکومت کی بین الاقوامی سطح پر عدم تسلیم شدہ حیثیت اس منصوبے کی راہ میں بڑے چیلنجز ہیں۔ اسحاق ڈار کے مطابق، افغانستان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک جیسی تنظیموں کو اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دے گا۔
سی پیک کی افغانستان تک توسیع پر بھارت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ متنازعہ علاقے گلگت بلتستان سے گزرتا ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کی شمولیت خطے میں بھارت کے اثر و رسوخ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ اس کے باوجود، سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان نے پاکستان اور چین کے ساتھ مکمل تعاون کا اعلان کیا ہے۔
تجزیہ کار فخر کاکاخیل کے مطابق، چین اس منصوبے کے ذریعے خطے میں استحکام لانے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ اس کا مفاد بھی گوادر بندرگاہ سے وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور ایران اب اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں کہ ہمسائے تبدیل نہیں ہو سکتے، اس لیے پرامن بقائے باہمی ہی ترقی کا واحد راستہ ہے۔
ادھر بلوچستان کے ضلع خضدار میں اسکول بس پر ہونے والے بہیمانہ حملے کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حملے کو بزدلانہ اور سنگدلانہ دہشتگردی قرار دیتے ہوئے متاثرہ خاندانوں اور پاکستانی قوم سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ اس حملے میں 4 بچوں سمیت 6 افراد شہید اور 53 زخمی ہوئے۔