اسلام آباد/لاہور: وزیراعظم محمد شہباز شریف علاقائی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے کردار کو مضبوط بنانے اور دو طرفہ تعلقات کو وسعت دینے کے لیے 6 روزہ اہم دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔ وہ اس دوران ترکیہ، آذربائیجان، ایران اور تاجکستان کے سربراہان سے ملاقاتیں کریں گے۔
وزیراعظم خصوصی سرکاری طیارے میں لاہور سے روانہ ہو کر سب سے پہلے استنبول، ترکیہ پہنچے جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس اہم دورے میں ان کے ہمراہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ، اور وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی بھی شامل ہیں۔ یہ اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کی جانب سے علاقائی تعاون، سفارتی تعلقات، اور باہمی تجارت کے فروغ کے لیے سنجیدہ کوششوں کی غمازی کرتا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے اس دورے کا بنیادی مقصد ان ممالک کے ساتھ اقتصادی، سیاسی، دفاعی اور ثقافتی روابط کو مزید گہرا کرنا ہے۔ وہ میزبان ممالک کی قیادت سے دوطرفہ تعلقات، تجارت، سرمایہ کاری، توانائی تعاون، سرحدی امور، اور سیکیورٹی چیلنجز جیسے اہم موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔
دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت کے ساتھ خطے میں کشیدگی کی فضا برقرار ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف ان دوست ممالک کی قیادت کا شکریہ ادا کریں گے جنہوں نے اس نازک وقت میں پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی اور خطے میں امن و استحکام کی کوششوں کو سراہا۔ یہ شکرگزاری نہ صرف سفارتی اخلاقیات کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کی علاقائی سفارت کاری میں اعتماد کی فضا کو فروغ دے گی۔
وزیراعظم اپنے دورے کے آخری مرحلے میں 29 اور 30 مئی کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں ہونے والی بین الاقوامی گلیشیئرز کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ یہ کانفرنس ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں ایک اہم عالمی پلیٹ فارم تصور کی جا رہی ہے، جس میں شہباز شریف پاکستان کا مؤقف پیش کریں گے اور جنوبی ایشیائی خطے کو درپیش خطرات پر عالمی توجہ مبذول کرائیں گے۔
ترکیہ، آذربائیجان، ایران اور تاجکستان نہ صرف پاکستان کے قریبی دوست ممالک ہیں بلکہ علاقائی معاشی تعاون اور سفارتی توازن میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ دورہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت دے گا اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر نئی راہیں کھولے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف 30 مئی کو تاجکستان سے وطن واپس پہنچیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ دورہ نہ صرف دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرے گا بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بھی ایک نیا اور مؤثر رخ دے گا۔
یہ دورہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان عالمی و علاقائی سطح پر باوقار اور متحرک سفارت کاری کی طرف گامزن ہے، جو معاشی ترقی، امن و استحکام اور ماحولیاتی تحفظ جیسے اہم شعبوں میں نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔