پی ٹی آئی کے سینئر رہنما سینیٹر علی ظفر نے جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ انصاف اور فوری مقدمات کی سماعت چاہتے ہیں اور پاکستان میں قومی اتحاد کے لیے کسی بھی وقت مذاکرات کو تیار ہیں۔ ان کے بقول، عمران خان کی جانب سے احتجاجی تحریک کا اعلان ہو چکا ہے اور آئندہ 5 سے 6 دنوں میں اس کا واضح لائحہ عمل پیش کیا جائے گا۔
عالیہ حمزہ کو بڑی ذمے داری، پنجاب میں سیاسی قیادت سنبھالنے کا حکم
اس سیاسی ہلچل میں ایک اور بڑی پیش رفت بھی سامنے آئی ہے: عمران خان نے پنجاب میں پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کی قیادت عالیہ حمزہ کو سونپنے کی منظوری دے دی ہے۔ باقاعدہ نوٹیفکیشن دوبارہ جاری کرنے کی ہدایت بھی جاری کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق پارٹی کی جانب سے ایک نئی کمیٹی عمران خان کو پیش کی گئی، جس پر انہوں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں سیاسی ڈھانچے کو نئی جان بخشنے کے لیے عالیہ حمزہ کی قیادت ناگزیر ہے۔
عمران خان نے علی ظفر کو خصوصی ذمے داری دی ہے کہ وہ اس فیصلے سے فردوس شمیم نقوی کو آگاہ کریں، تاکہ تنظیمی فیصلے بلا تاخیر عمل میں لائے جا سکیں۔ نئی سیاسی کمیٹی میں سلمان اکرم راجہ، عمر ایوب، احمد خان بچھر اور عثمان اکرم شامل ہوں گے۔
سیاسی منظرنامے میں ہلچل… کیا عمران خان کی "مصالحاتی سیاست” کا نیا باب کھل رہا ہے؟
سیاسی پنڈتوں کے مطابق عمران خان کا حالیہ بیان اسٹیبلشمنٹ سے ممکنہ ڈائیلاگ کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اگرچہ وہ ذاتی ریلیف کے لیے بات چیت کے خواہشمند نہیں، لیکن پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے قومی مفاہمت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
عالیہ حمزہ کو پنجاب میں قیادت دینا بھی اس بات کی علامت ہے کہ عمران خان اب تنظیمی محاذ پر بھی نئے فیصلے کر رہے ہیں — اور پارٹی کو متحرک رکھنے کے لیے بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔
عمران خان کا جیل سے سیاسی پیغام، اور پنجاب کی تنظیم نو کی تازہ ترین ہدایات نے ثابت کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی صرف جمود نہیں توڑ رہی، بلکہ نئی صف بندیوں اور اسٹریٹیجک فیصلوں کے ذریعے ایک بھرپور سیاسی واپسی کی تیاری کر رہی ہے۔کیا اگلا سیاسی طوفان آنے والا ہے؟وقت قریب ہے، لائحہ عمل بس چند دن کی دوری پر ہے!