امریکہ اور چین کے درمیان تعلیمی تعلقات کی فضا میں ایک بار پھر کشیدگی چھا گئی ہے، اور اس بار نشانے پر ہیں چین سے تعلق رکھنے والے وہ ہزاروں طلبا جو امریکی جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے واشنگٹن میں ایک اہم اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت اب ان چینی طلبا کے ویزے منسوخ کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جن کا تعلق یا تو چین کی کمیونسٹ پارٹی سے ہے، یا جو امریکہ کے حساس اور کلیدی تعلیمی شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ میں موجود چینی طلبا پہلے ہی شک اور نگرانی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے تحت کیا جا رہا ہے، اور اس پر محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ مشترکہ حکمت عملی کے تحت عمل درآمد کریں گے تاکہ "ممکنہ خطرات” کا تدارک کیا جا سکے۔
دوسری جانب، امریکہ میں اس وقت چین سے تعلق رکھنے والے طلبا کی تعداد دو لاکھ ستر ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جو کہ غیر ملکی طلبا کی کل تعداد کا تقریباً ایک چوتھائی بنتے ہیں۔
اس لحاظ سے چین، بھارت کے بعد دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کے نوجوان تعلیم کے لیے امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔
مارکو روبیو نے ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے حالیہ دنوں میں چینی طلبا کے ویزا انٹرویوز کا عمل بھی معطل کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان طلبا کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کے لیے نئے ضوابط بھی لاگو کیے جا رہے ہیں، تاکہ ان کے نظریات اور وابستگیوں کا جائزہ لیا جا سکے۔
یہ پالیسیاں ٹرمپ انتظامیہ کے سخت گیر رویے کا تسلسل ہیں۔ حالیہ مہینوں میں امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے کئی غیر ملکی طلبا کو سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا، خاص طور پر ان طلبا کو جو غزہ کی جنگ کے خلاف مظاہروں میں شامل تھے۔
امریکی امیگریشن حکام نے کئی افراد کو گرفتار کیا اور ان کی ملک بدری کی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اسی دوران ہزاروں طلبا کی ویزا حیثیت بغیر کسی پیشگی اطلاع کے منسوخ کر دی گئی۔
امریکی کانگریس میں موجود ریپبلکن ارکان کی جانب سے تعلیمی اداروں پر بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
خاص طور پر ڈیوک یونیورسٹی کو تنبیہ کی گئی کہ وہ چین کی یونیورسٹیوں کے ساتھ اپنے تعلیمی شراکت داریوں کو ختم کرے، کیونکہ ان تعلقات کی آڑ میں چینی طلبا کو امریکی دفاعی تحقیقاتی منصوبوں میں رسائی دی جا رہی ہے۔
اسی طرح امریکی وزیر داخلہ کرسٹی نیوم نے ہارورڈ یونیورسٹی پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی نہ صرف چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ منسلک اداروں سے تعاون کر رہی ہے، بلکہ وہ سنکیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کور جیسے پیراملٹری گروپ کے افراد کو تربیت بھی فراہم کرتی ہے۔ اس پر بھی تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے۔
حال ہی میں عدالت نے ایک فیصلے میں ٹرمپ انتظامیہ کو اس بات سے روک دیا ہے کہ وہ ہارورڈ کو غیر ملکی طلبا کے داخلے سے منع کرے۔
لیکن اس کے باوجود صدر ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کی اعلیٰ تعلیمی جامعات میں غیر ملکی طلبا کی تعداد کو 15 فیصد تک محدود کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا: "ہمیں ایسے طلبا چاہییں جو نہ صرف ذہین ہوں بلکہ امریکہ سے محبت بھی کرتے ہوں۔”
یہ تمام اقدامات نہ صرف چینی طلبا بلکہ دیگر ممالک کے ان نوجوانوں کے لیے بھی باعث تشویش ہیں جو امریکہ کو تعلیمی ترقی کے لیے ایک خوابوں کی سرزمین سمجھتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کا یہ نیا رخ عالمی تعلیمی تعاون کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی طلبا کو بھی غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کر رہا ہے۔