اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی سفارتی حیثیت کو عالمی سطح پر ایک نمایاں مقام حاصل ہو گیا ہے، جہاں 2025 کے لیے پاکستان کو دو نہایت اہم ذیلی کمیٹیوں میں کلیدی عہدے سونپے گئے ہیں۔
ایک جانب پاکستان کو دہشت گردی کے انسداد سے متعلق کمیٹی (1373 Counter-Terrorism Committee) کا نائب صدر منتخب کیا گیا ہے، جبکہ دوسری جانب 1988 طالبان پابندیوں کی کمیٹی کی صدارت کی ذمے داری بھی اسلام آباد کے سپرد کی گئی ہے۔
یہ فیصلے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان پاہلگام حملے کے بعد کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ اس تناظر میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ پارلیمانی وفد نے اقوام متحدہ کے صدر دفتر نیویارک کا دورہ کیا، جس دوران انہوں نے متعدد عالمی رہنماؤں اور سفارتی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔
پاکستانی وفد نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، جنرل اسمبلی کے صدر، سلامتی کونسل کے ارکان، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) سے تعلق رکھنے والے ممالک کے سفیروں، عالمی میڈیا، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور پاکستانی کمیونٹی سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ان نشستوں میں پاکستان نے خطے میں امن کے لیے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری، غیر جانبدار تحقیقات، اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات پر زور دیا۔
وفد نے خاص طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، شہری آبادی پر حملوں، اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پامالی جیسے معاملات کو اجاگر کیا۔
پاکستان نے بھارت کے ان الزامات کو بھی مسترد کر دیا جو اس نے 22 اپریل کے حملے کے بارے میں بغیر کسی ثبوت کے لگائے تھے۔ پاکستانی موقف تھا کہ عالمی برادری کے سامنے حقائق رکھے جائیں اور بھارت کو عالمی سطح پر قانون کی پاسداری کا پابند بنایا جائے۔
سلامتی کونسل کے ذیلی اداروں کی نئی فہرست کے مطابق، 2025 میں 1373 انسداد دہشت گردی کمیٹی کی قیادت الجزائر کے پاس ہو گی، جب کہ پاکستان، روس اور فرانس اس کے نائب صدور کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔
اسی طرح 1988 طالبان پابندیوں کی کمیٹی، جو افغانستان میں امن و استحکام کے لیے خطرہ بننے والے طالبان عناصر پر پابندیوں کی نگرانی کرتی ہے، اس کی صدارت پاکستان کو سونپی گئی ہے۔
یہ کمیٹی اثاثے منجمد کرنے، سفر پر پابندیاں عائد کرنے، اور اسلحے کی خرید و فروخت پر قدغن جیسے اہم اقدامات کی ذمہ دار ہے۔ اس کمیٹی میں روس اور گیانا نائب صدر کے طور پر شامل ہوں گے۔
مزید برآں، 2025 سے 2026 کے لیے پاکستان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بھی منتخب کر لیا گیا ہے، جو اس کی عالمی سفارتی حیثیت میں مزید اضافہ کا مظہر ہے۔
اس انتخاب میں پاکستان کو 193 میں سے 182 ووٹ ملے، جو مطلوبہ دو تہائی اکثریت (124 ووٹ) سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری میں پاکستان کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ سلامتی کونسل 15 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے، جن میں سے پانچ مستقل رکن — چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ — کو ویٹو کا اختیار حاصل ہے، جبکہ دس غیر مستقل ارکان دو سال کی مدت کے لیے جنرل اسمبلی کے خفیہ رائے دہی کے ذریعے منتخب کیے جاتے ہیں۔
ان نشستوں کا تعین جغرافیائی خطوں کے تناسب سے کیا جاتا ہے۔ اس وقت غیر مستقل ارکان میں الجزائر، ڈنمارک، یونان، گیانا، پاکستان، پانامہ، جنوبی کوریا، سیرا لیون، سلووینیا اور صومالیہ شامل ہیں۔
منگل کو ہونے والے حالیہ انتخابات میں پانچ نئے ممالک — بحرین، جمہوریہ کانگو، لائبیریا، لٹویا، اور کولمبیا — کو دو سالہ مدت (یکم جنوری 2026 سے شروع ہونے والی) کے لیے سلامتی کونسل میں منتخب کیا گیا ہے۔
پاکستان کی ان تقرریوں کو نہ صرف بھارت کے لیے ایک سفارتی دھچکا قرار دیا جا رہا ہے بلکہ بین الاقوامی حلقے اس پیش رفت کو جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن میں ایک اہم تبدیلی کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کا اقوام متحدہ کے اہم ترین معاملات — بالخصوص انسداد دہشت گردی اور افغان امور — میں مرکز نگین بننا اس بات کا عکاس ہے کہ اسلام آباد کی پالیسیوں کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
یہ وہی صورتحال ہے جس پر کئی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کے موقف کو تسلیم کیے جانے کے بعد بھارت کی خطے پر بالادستی کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔
اب جب کہ پاکستان سلامتی کونسل کے دو اہم ترین شعبوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا، دنیا کی نظریں اس کی آئندہ سفارتی حکمت عملی اور بین الاقوامی کردار پر مرکوز ہوں گی۔