امریکی سیاست کے دو بڑے اور متنازع کرداروں، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کے درمیان حالیہ کشیدگی نے نہ صرف واشنگٹن کی فضاؤں میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ وال اسٹریٹ اور خلائی صنعت پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
دو دن کے اندر اندر، اختلافِ رائے ایک باقاعدہ محاذ آرائی میں تبدیل ہو گیا، جس نے سابق اتحادیوں کے رشتے کو ماضی کا قصہ بنا دیا ہے۔
یہ محاذ آرائی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب ایلون مسک نے صدر ٹرمپ کے مجوزہ معاشی بلز پر کھل کر تنقید کی اور انہیں امریکی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیا۔
اُن کے مطابق یہ بل نہ صرف عوامی قرض میں بے پناہ اضافہ کرے گا بلکہ متوسط طبقے پر بھی شدید مالی بوجھ ڈالے گا۔ مسک کا کہنا تھا کہ اس بل کی منظوری سے امریکہ پر مجموعی قرض 36.2 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچے گا۔
ابتدا میں ڈونلڈ ٹرمپ نے خاموشی اختیار کی، لیکن جلد ہی وہ منظرِ عام پر آگئے اور انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "سوشل ٹروتھ” پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت ایلون مسک کی کمپنیوں کو دی جانے والی سبسڈیز اور معاہدے منسوخ کر سکتی ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر قوم کا بجٹ بچانا ہے تو سب سے آسان حل یہی ہے کہ ایلون مسک کو دی گئی مالی مراعات ختم کر دی جائیں۔
ٹرمپ کے ان بیانات کے فوری بعد ٹیسلا کے شیئرز میں تیز گراوٹ دیکھنے کو ملی اور کمپنی کی مارکیٹ ویلیو میں صرف ایک دن میں 150 بلین ڈالر کا خسارہ ہوا، جو ٹیسلا کی تاریخ میں ایک دن میں سب سے بڑا مالی نقصان تصور کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کی تنقید کے جواب میں ایلون مسک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ "ٹرمپ کا مواخذہ ہونا چاہیے۔”
تاہم امریکی کانگریس کی موجودہ ساخت کو دیکھتے ہوئے، جہاں ریپبلکن پارٹی کو دونوں ایوانوں میں برتری حاصل ہے، یہ تجویز عملی طور پر ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ تناؤ دو روز قبل اس وقت مزید بڑھا جب ایلون مسک نے نہ صرف ٹرمپ کے بجٹ بل بلکہ اُن کے مجوزہ ٹیرف پالیسیوں پر بھی سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اگر یہ پالیسیاں اسی طرح لاگو رہیں تو امریکی معیشت سال کے آخر تک کساد بازاری کا شکار ہو جائے گی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ماضی میں ایلون مسک، صدر ٹرمپ کے قریبی مشیر سمجھے جاتے تھے اور حکومتی کارکردگی بہتر بنانے کے ایک خصوصی مشاورتی شعبے کے سربراہ بھی رہے، جس نے ایک وقت میں فیڈرل سرکاری ملازمین کی تعداد کم کرنے جیسے فیصلے بھی تجویز کیے تھے۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔
مسک نے اس عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد ٹرمپ کے معاشی بل کو "نفرت انگیز اور مکروہ” قرار دیا تھا، جبکہ ٹرمپ اسے ’بِگ بیوٹی فل بِل‘ کہہ کر سراہتے رہے ہیں۔ یہی لفظی تضاد دونوں شخصیات کے درمیان اس بڑھتی ہوئی خلیج کا واضح مظہر بن چکا ہے۔
ٹرمپ اور مسک کے درمیان تعلقات میں دراڑ اس وقت واضح طور پر نظر آئی جب صدر ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ایلون مسک نے مجھے شدید مایوس کیا ہے، ہم پہلے بہت قریبی تھے، لیکن اب مجھے یقین نہیں کہ یہ تعلق دوبارہ بحال ہو سکے گا۔”
مسک نے اس کے جواب میں نہ صرف یہ دعویٰ کیا کہ 2020 کے انتخابات میں ان کی مالی معاونت کے بغیر ٹرمپ جیت نہیں سکتے تھے بلکہ یہ بھی کہا کہ انہوں نے ریپبلکنز کی حمایت میں تین سو ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔
مزید برآں، ایلون مسک نے خبردار کیا کہ اگر صدر ٹرمپ اپنی دھمکیوں پر عمل کرتے ہیں تو وہ اپنے خلائی منصوبے ’ڈریگن اسپیس کرافٹ‘ کی پیداوار بند کر دیں گے، جو فی الحال امریکہ کا واحد خلائی جہاز ہے جس کے ذریعے خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک بھیجا جا سکتا ہے۔
اگرچہ مسک نے یہ دھمکی بعد میں واپس لے لی، لیکن اس کے اثرات حکومت اور اسپیس ایکس کے تعلقات پر ضرور پڑیں گے۔
ادھر، مسک کی سیاست میں بڑھتی ہوئی دلچسپی نے ان کی کمپنیوں پر بھی اثر ڈالا ہے۔ ٹیسلا کی متعدد تنصیبات پر مظاہرے شروع ہو چکے ہیں اور سرمایہ کار اب اس خدشے کا شکار ہو گئے ہیں کہ مسک کی توجہ کاروباری ترقی کے بجائے سیاسی معرکوں میں بٹ گئی ہے۔
منگل کے روز مسک نے ایک اور دھماکہ خیز بیان دیتے ہوئے لکھا: "اگلے سال نومبر میں ہم ان تمام سیاستدانوں کو اقتدار سے نکال باہر کریں گے جنہوں نے امریکی عوام سے غداری کی ہے۔” ان کے اس بیان کو اگلے سال ہونے والے وسط مدتی انتخابات کی طرف ایک واضح اشارہ سمجھا جا رہا ہے، جو ریپبلکن پارٹی کے لیے ایک کڑا امتحان بن سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور مسک کے درمیان یہ کھلا تصادم نہ صرف امریکی سیاست میں ایک نئی تقسیم کو جنم دے گا بلکہ ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور حکومتی پالیسی سازی پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
ماضی کے دو قریبی اتحادی، آج ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں، اور اب سب کی نظریں اس بات پر جمی ہوئی ہیں کہ اس سیاسی اور معاشی رسہ کشی کا اگلا موڑ کیا ہوگا۔