شمالی کوریا کی قیادت نے حالیہ برسوں میں جوہری اسلحہ اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو غیرمعمولی حد تک ترقی دی ہے، اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔
ان تعلقات میں اس وقت شدت آئی جب پیانگ یانگ نے یوکرین جنگ میں ماسکو کی کھل کر حمایت کی اور فوجی ساز و سامان فراہم کیا۔
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کے مطابق، کم جونگ اُن نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو یہ پیغام دیا ہے کہ اُن کا ملک ہمیشہ روس کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔
ایسے میں جب دنیا کی نظریں شمال مشرقی ایشیا میں پیدا ہونے والے نئے سفارتی اور سکیورٹی ماحول پر جمی ہوئی ہیں، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شمالی کوریا کے ساتھ دوبارہ روابط کی خواہش نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن سے کسی بھی ممکنہ رابطے کا خیرمقدم کریں گے۔‘‘
یہ بیان ایک ایسی رپورٹ کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے وفد نے صدر ٹرمپ کی جانب سے کم جونگ اُن کے نام ارسال کیے گئے خط کو متعدد بار قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
یہ رپورٹ جنوبی کوریا میں قائم شمالی کوریا سے متعلق تحقیقاتی ویب سائٹ "این کے نیوز” نے شائع کی تھی۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان 2017 سے 2021 کے درمیان، جب ٹرمپ صدر تھے، تین براہِ راست ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔
ان ملاقاتوں کے دوران نہ صرف ذاتی خطوط کا تبادلہ ہوا بلکہ دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات کو غیر رسمی طور پر "دوستانہ” بھی قرار دیا جاتا رہا۔ اُس وقت صدر ٹرمپ نے کم جونگ اُن کے خطوط کو "خوبصورت” کہہ کر سراہا تھا۔
جون 2019 میں صدر ٹرمپ نے ایک مختصر دورے کے دوران جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان واقع غیر فوجی زون (DMZ) کا دورہ کیا، اور اس مقام پر علامتی طور پر شمالی کوریا کی حدود میں داخل ہونے والے پہلے امریکی صدر بنے۔
تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود، شمالی کوریا کے جوہری عزائم پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔
صدر ٹرمپ نے مارچ میں ایک بیان میں اعتراف کیا کہ پیانگ یانگ اب ایک "ایٹمی طاقت” بن چکا ہے۔ ان کی صدارت کے بعد، شمالی کوریا نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی طرف کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، اور سفارتی عمل جمود کا شکار رہا۔
اب جب کہ جنوبی کوریا میں لی جائی میونگ نے صدر کا عہدہ سنبھالا ہے، پیانگ یانگ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے نئی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔
صدر لی نے غیر فوجی زون میں نصب کیے گئے لاؤڈ اسپیکروں سے شمالی کوریا میں نشر کیے جانے والے موسیقی اور پیغامات کا سلسلہ بند کر دیا ہے، جسے ایک مفاہمانہ اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔ ان کی حکومت شمالی کوریا کے ساتھ بامقصد بات چیت کی بحالی کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے۔
مگر تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ اس بار صورتحال کہیں زیادہ پیچیدہ ہو چکی ہے۔ کم جونگ اُن کے روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعلقات، اور پیانگ یانگ کے جوہری پروگرام میں تیزی سے ہونے والی پیش رفت کے باعث، شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز پر لانا اب پہلے سے زیادہ مشکل ہو گا۔
ان حالات میں صدر ٹرمپ کا شمالی کوریا کے ساتھ دوبارہ روابط کی خواہش ظاہر کرنا، جہاں ایک جانب ایک مثبت امکان کی نشاندہی کرتا ہے، وہیں دوسری طرف عالمی سفارتی ماحول میں کئی نئے چیلنجز کو بھی جنم دیتا ہے۔ کیا کم جونگ اُن ایک بار پھر امریکہ سے بات چیت پر آمادہ ہوں گے؟ یہ سوال آنے والے دنوں میں عالمی سیاست کی توجہ کا مرکز بننے والا ہے۔