ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے دوٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ ان کی حکومت بیرونی دباؤ یا مغربی طاقتوں کے مطالبات کے سامنے نہ تو جھکے گی اور نہ ہی ملکی ایٹمی تحقیقاتی سرگرمیوں کو روکنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اپنی سائنسی ترقی کی راہ میں کسی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔
ایلام صوبے میں ایک سرکاری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر نے زور دے کر کہا کہ جوہری ٹیکنالوجی کا حصول ایران کا ایک قومی حق ہے، جو صنعت، زراعت اور طب سمیت دیگر پرامن شعبوں میں ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران اپنے سائنسی پروگرام کے لیے مغرب کی منظوری کا پابند نہیں ہے، اور نہ ہی کسی ملک کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایران کے پرامن نیوکلیئر پروگرام پر سوال اٹھائے۔
صدر مسعود پزشکیان نے اپنے خطاب میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے اُس تاریخی فرمان کا بھی حوالہ دیا جس میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو اسلام کے اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے اس سے اجتناب برتنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کا حصہ نہیں بنے گا، تاہم جوہری علم اور ٹیکنالوجی کا پرامن استعمال اُس کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون رہے گا۔
ادھر دوسری جانب، بین الاقوامی سطح پر ایران کے جوہری عزائم کے حوالے سے تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے "انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی” (IAEA) نے آج ایک نئی قرارداد کی منظوری دی ہے، جس میں ایران پر جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے کی مبینہ خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس قرارداد کے ذریعے ایران سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی یورینیئم افزودگی کی سرگرمیوں کو محدود کرے اور عالمی معیارات کے مطابق نگرانی کے عمل کو مکمل طور پر بحال کرے۔
موجودہ حالات میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ایران اور امریکہ کے مابین گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد مذاکراتی نشستیں ہو چکی ہیں، جن کا مقصد 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے (جسے "JCPOA” کہا جاتا ہے) کے متبادل کے طور پر کسی نئے معاہدے تک پہنچنا ہے۔ تاہم ان کوششوں میں اب تک خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کا چھٹا دور آئندہ اتوار کے روز عمان کے دارالحکومت مسقط میں متوقع ہے۔
یہ بات چیت ایسے وقت ہو رہی ہے جب خطے میں کشیدگی کی فضا مزید گہری ہو چکی ہے اور فریقین کی پوزیشنیں بھی خاصی سخت ہو گئی ہیں۔