ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ وہ پہلے سے اس حقیقت سے باخبر تھے کہ اسرائیل ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ تہران کو کسی صورت ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ دونوں ممالک ایک بار پھر مذاکرات کی راہ پر واپس آ سکتے ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے باوجود امریکہ نے اسرائیل کی حالیہ فوجی کارروائی میں براہ راست کوئی حصہ نہیں لیا۔ تاہم، اُن کے بقول، انہیں اسرائیلی قیادت کی طرف سے آپریشن سے قبل اعتماد میں لیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ آج صبح اسرائیل نے ایران میں جوہری اور عسکری اہداف پر وسیع پیمانے پر حملے کیے، جن میں ایک سو سے زائد مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں ایران کے حساس مقامات، جن میں نطنز کی جوہری تنصیب سرفہرست ہے، شامل تھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ یہ کارروائی ایران کے ایٹمی پروگرام کو کمزور کرنے کے لیے ضروری تھی۔
دوسری طرف ایرانی سرکاری ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی حملوں میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی اور ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف محمد باقری بھی مارے گئے ہیں۔ اگر ان اطلاعات کی تصدیق ہو جاتی ہے، تو یہ ایرانی قیادت کے لیے ایک غیر معمولی دھچکا ہو گا۔
فوکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ اگر ایران ان حملوں کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے تو امریکہ اپنے مفادات اور اسرائیل کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔
ان کے بقول، ان کی انتظامیہ نے مشرق وسطیٰ میں کم از کم ایک اہم اتحادی کو حملے سے پہلے مطلع بھی کیا تھا، تاکہ کسی بھی غیر متوقع ردعمل کے لیے پیشگی تیاری ممکن ہو۔
امریکہ کے موجودہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک روز قبل اپنے بیان میں واضح کیا تھا کہ واشنگٹن ان حملوں میں شریک نہیں ہے اور امریکہ کی ترجیح خطے میں اپنی فوجوں اور تنصیبات کا تحفظ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کو ہرگز یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ امریکی مفادات یا عملے کو نشانہ بنائے۔
صدر ٹرمپ، جو اس وقت دوبارہ انتخابی مہم میں سرگرم ہیں، آج قومی سلامتی کونسل کے ایک اہم اجلاس میں شریک ہوں گے تاکہ صورتحال کا جائزہ لے سکیں اور مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے بحران پر امریکی پالیسی کو مربوط کر سکیں۔