تہران/تل ابیب/واشنگٹن:ایران اور اسرائیل کے مابین تاریخ کی شدید اور ہلاکت خیز میزائل جنگ تیسرے روز بھی جاری ہے، جہاں آسمان آتش بازی کا منظر پیش کر رہا ہے اور زمین خون سے تر ہو چکی ہے۔ اتوار کی شام ایرانی افواج نے اسرائیل پر درجنوں میزائل داغے، جنہوں نے تل ابیب اور دیگر شہروں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق، یہ حملے اسرائیلی بمباری کے جواب میں کیے گئے، جس میں تہران کے قلب میں واقع پولیس ہیڈکوارٹرز، مہرآباد ایئرپورٹ اور ایک لگژری ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں 128 شہری ہلاک اور 900 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ 14 ایرانی جوہری سائنسدانوں کی ہلاکت نے عالمی برادری کو چونکا دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایران کو ناقابلِ برداشت نقصان پہنچائیں گے، اور وہ ہمارے فولادی عزم کو محسوس کریں گے۔
تل ابیب کے جنوب میں ایک متاثرہ علاقے کے دورے کے دوران انہوں نے کہا، "یہ صرف دفاع نہیں، یہ بقا کی جنگ ہے۔ اگر ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوتے تو آپ اندازہ کریں کیا ہوتا.
ایرانی حکومت نے فوری طور پر دارالحکومت تہران کے میٹرو سسٹم کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا اعلان کیا ہے، تاکہ شہری حملوں سے بچنے کے لیے اس کا استعمال پناہ گاہ کے طور پر کر سکیں۔ سرکاری ترجمان فاطمہ محجرانی کے مطابق، تہران بھر میں زیر زمین سرنگیں، مساجد اور اسکول عوامی پناہ گاہوں میں بدل دی گئی ہیں۔
روس نے زمینی راستوں سے ایران میں موجود اپنے شہریوں کے انخلا کا عمل شروع کردیا ہے،جب کہ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ ایران اور اسرائیل جلد معاہدے کی طرف بڑھیں گے۔ٹرمپ نے کہا یہ خطرناک کھیل بند ہونا چاہیے، اور دونوں ممالک کو جلد معاہدہ کرنا ہو گااور وہ کریں گے
تاہم ایک امریکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے عندیہ دیا کہ "اگر ضرورت پڑی تو امریکہ اس جنگ میں شامل ہو سکتا ہے۔
خطے میں صورت حال اس وقت مزید نازک ہو گئی جب ایران نواز عراقی ملیشیا ‘حزب اللہ بریگیڈز’ نے خبردار کیا کہ اگر امریکہ مداخلت کرتا ہے تو ہم اس کے فوجی اڈوں اور مفادات کو نشانہ بنائیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ، "ہم خطے میں امریکی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اور کسی بھی حرکت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔”
خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے: کیا یہ جنگ ایٹمی تصادم کی دہلیز پر ہے؟عالمی مبصرین اور اقوام متحدہ کی جانب سے فوری جنگ بندی کی اپیلیں کی جا رہی ہیں، مگر صورتحال دن بہ دن خوفناک شکل اختیار کر رہی ہے۔ کیا مشرقِ وسطیٰ ایک نئی عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے؟ کیا تہران اور تل ابیب کی خاکستر میں سے امن کا بیج جنم لے گا؟ یا پھر یہ آتش فشاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا؟
فی الحال، ہر آنکھ آسمان پر ہے جہاں سے موت نازل ہو رہی ہے۔