پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے پیش نظر ایران سے جڑے تمام زمینی راستے مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔
اگرچہ ان سرحدی بندشوں کا بنیادی مقصد پاکستانی شہریوں کو ممکنہ خطرات سے بچانا ہے، تاہم اس کا اثر نہ صرف مقامی تجارت بلکہ روزمرہ کی ضروریات اور رسد پر بھی واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان کے جن اضلاع کی ایران کے ساتھ سرحدیں ہیں، ان میں گوادر، کیچ، پنجگور، واشک اور چاغی شامل ہیں۔ ان تمام اضلاع میں وفاقی حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سرحدی نقل و حرکت پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس فیصلے کے تحت گوادر میں گبد-رمدان، کیچ میں مند-ردیگ، پنجگور میں چیدگی اور پروم-جیرک، چاغی میں تفتان-میرجاوہ اور واشک میں ماشکیل سمیت تمام بارڈر کراسنگ پوائنٹس کو تاحکمِ ثانی بند کر دیا گیا ہے۔
تفتان کے اسسٹنٹ کمشنر نعیم احمد شاہوانی کے مطابق یہ اقدام محض احتیاطی تدابیر کے تحت اٹھایا گیا ہے تاکہ ایران میں کشیدہ حالات کے تناظر میں پاکستانی شہریوں کو خطرے سے محفوظ رکھا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایران میں مقیم پاکستانیوں کی واپسی کا عمل جاری ہے، تاہم پاکستان سے ایران کی طرف سفر کرنے پر فی الحال مکمل پابندی عائد ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تفتان کے ذریعے اب تک 470 سے زائد زائرین اور 90 پاکستانی شہری، جنہیں ایرانی حکام نے بے دخل کیا تھا، واپس پہنچ چکے ہیں۔ اسی طرح ایران میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کی واپسی بھی متوقع ہے، اور ان کے لیے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر بند نہیں کی گئیں، اور ایران سے آنے والے مال بردار ٹرکوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
تاہم ان پاکستانی ڈرائیورز کو ایران جانے سے روکا جا رہا ہے جو تجارتی مال لے کر جا رہے تھے۔
پھر بھی، زمینی حقائق کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔ تفتان میں تعینات ایک اعلیٰ افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرحدی صورتحال کے باعث تجارتی سرگرمیوں میں واضح کمی آئی ہے، اور اس کے اثرات اب بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ضلع پنجگور کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیدگی اور پروم-جیرک سرحدی پوائنٹس کو نہ صرف عام آمدورفت بلکہ ایرانی تیل کی ترسیل کے لیے بھی بند کر دیا گیا ہے۔
عوام کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور مقامی انتظامیہ سے مکمل تعاون کریں۔
اسی طرح ضلع کیچ کے ڈپٹی کمشنر بشیر احمد بڑیچ نے تصدیق کی ہے کہ مند-ردیگ سرحدی راستہ ایران کی داخلی صورتحال کے باعث بند کیا گیا ہے، جب کہ گوادر کے اسسٹنٹ کمشنر جواد زہری کے مطابق گبد-رمدان بارڈر سے صرف ایران سے واپس آنے والے شہریوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارتی معاملات فی الحال متاثر نہیں ہوئے۔
تاہم زمینی سطح پر صورتحال اس سے مختلف ہے۔ ایران سے بلوچستان میں آنے والے ایرانی تیل، گیس اور دیگر اشیائے خورونوش کی ترسیل میں رکاوٹ نے روزمرہ زندگی کو براہ راست متاثر کیا ہے۔
بلوچستان کے کئی سرحدی علاقوں میں ایندھن اور خوراک کا بڑا انحصار ایران سے آنے والی ترسیل پر ہوتا ہے، اور موجودہ پابندیوں کے باعث ان اشیاء کی قلت سامنے آ رہی ہے۔
مقامی افراد نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پنجگور کے رہائشی اشفاق بلوچ نے بتایا کہ تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جبکہ کوئٹہ میں بھی کئی پٹرول پمپس پر لمبی قطاریں دیکھی جا رہی ہیں۔
ایک پمپ کے مالک محمد عامر کا کہنا تھا کہ ایران سے تیل کی ترسیل کئی ہفتے پہلے ہی بند کر دی گئی تھی، جس سے طلب اور رسد میں فرق پیدا ہوا، اور اب رجسٹرڈ پمپوں پر دباؤ بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ کراچی سے نیا پیٹرول سٹاک جلد کوئٹہ پہنچے گا، جس سے صورتحال میں بہتری آئے گی۔ دوسری جانب بلوچستان حکومت نے ان افواہوں کی تردید کی ہے کہ صوبے میں ایندھن کی قلت ہے۔
حکومت کے ترجمان شاہد رند نے واضح الفاظ میں کہا کہ کوئٹہ میں پیٹرول کی کوئی کمی نہیں، بلکہ یہ افواہیں ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے وابستہ عناصر کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں تاکہ ان پر عائد پابندیاں ختم کرائی جا سکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر قانونی طریقے سے ایرانی پیٹرول فروخت کرنے والے پمپس کو بند کر دیا گیا ہے، جبکہ رجسٹرڈ پیٹرول پمپس پر ایندھن کی فراہمی معمول کے مطابق جاری ہے۔
حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اگر کوئی ذخیرہ اندوزی میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
دوسری جانب وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ایران اور عراق میں مقیم پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اب تک 450 زائرین کو بحفاظت وطن واپس لایا جا چکا ہے جبکہ ایران میں زیر تعلیم 154 طلبہ کی واپسی کے لیے بھی خصوصی اقدامات جاری ہیں۔
دفتر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ایرانی اور عراقی سرزمین پر موجود پاکستانی شہریوں کی معاونت کے لیے ایک کرائسز مینجمنٹ یونٹ قائم کیا گیا ہے، جو 24 گھنٹے کام کر رہا ہے۔
عوام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایران اور عراق کے غیر ضروری سفر سے مکمل اجتناب کریں۔