یہ واقعہ کچھ ایسا ہے جو انسان کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے مشہور گلوکار گوانگ جیمز لائچوسیک نے حالیہ ایئر انڈیا حادثے کے تناظر میں ایک حیران کن مشابہت دنیا کے ساتھ شیئر کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 1998 میں جب وہ خود ایک فضائی حادثے سے معجزاتی طور پر زندہ بچے تھے، تو ان کی سیٹ بھی "11-اے” تھی، اور جب انہوں نے ایئر انڈیا کے حالیہ حادثے میں بچنے والے واحد مسافر وشاش کمار رامیش کا انٹرویو سنا، تو ایک جھرجھری ان کے جسم میں دوڑ گئی، کیونکہ وہ بھی عین اسی سیٹ پر بیٹھے تھے۔
گوانگ جیمز اس وقت صرف 20 کے قریب برس کے تھے جب تھائی ایئرویز کی پرواز بینکاک سے بھارت جاتے ہوئے ایک دلدلی علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی تھی۔
اس حادثے میں 101 افراد جاں بحق ہوئے تھے، اور یہ سانحہ ان کی زندگی کا ایک ایسا موڑ ثابت ہوا جس کے اثرات برسوں تک ان کے ساتھ رہے۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد وہ ایئر فوبیا کا شکار ہو گئے، اور تقریباً ایک دہائی تک کسی بھی ہوائی جہاز میں سوار ہونے کا تصور تک ان کے لیے اذیت ناک تھا۔
جب وہ بالآخر کسی مجبوری کے تحت جہاز میں بیٹھے بھی، تو سفر کے دوران وہ نہ کسی سے بات کرتے، نہ کچھ کھاتے، بس مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھتے رہتے جیسے وہ کسی ناقابل فہم عذاب کا سامنا کر رہے ہوں۔
ان کے مطابق، "اب بھی وہ آوازیں میرے کانوں میں گونجتی ہیں، اور جہاز گرنے کے بعد جو دلدلی پانی میرے منہ میں گیا، اس کا ذائقہ آج تک میرے حلق میں زندہ ہے۔”
دوسری جانب بھارت کے شہر احمد آباد سے لندن روانہ ہونے والی ایئر انڈیا کی پرواز کچھ ہی دیر بعد گر کر تباہ ہو گئی، جس میں 287 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ صرف ایک مسافر، وشاش کمار رامیش، زندہ بچ سکے۔
انہوں نے بتایا کہ پرواز کے آغاز کے صرف 30 سیکنڈ بعد ایک زوردار دھماکہ سنائی دیا، اور پھر جہاز بےقابو ہو کر زمین سے ٹکرا گیا۔ وشاش نے بتایا کہ انہوں نے اپنی سیٹ بیلٹ کھولی اور جیسے تیسے کر کے باہر نکلنے کی کوشش کی۔
گوانگ جیمز نے ان کی کہانی سنی تو برسوں پرانے اپنے زخم تازہ ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی اسی طرح بیلٹ کھول کر نکلنے کی کوشش کی تھی۔
وہ اس مماثلت پر حیران رہ گئے کہ محض واقعات ہی نہیں بلکہ ردعمل اور سیٹ نمبر تک ایک جیسے تھے۔
انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے بھی ان دونوں واقعات کے درمیان مماثلت کو نہایت حیرت سے دیکھا جا رہا ہے۔ کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھار زندگی ایسے راز کھولتی ہے جنہیں انسان عقل سے سمجھنے کے بجائے صرف محسوس ہی کر سکتا ہے۔
تقریباً تین دہائیوں کے فاصلے پر پیش آنے والے ان دونوں سانحات کی تفصیلات میں پائی جانے والی مماثلت نے دنیا کو ایک بار پھر یاد دلایا کہ انسان کتنی نازک ڈور پر زندگی گزار رہا ہے۔