تہران کے دل میں واقع بین الاقوامی اور سفارتی اداروں سے بھرے حساس علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا جب ایک اچانک فضائی حملے نے ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے "اسلامی جمہوریہ ایران براڈکاسٹنگ” (IRIB) کی مرکزی عمارت کو نشانہ بنایا۔
اس حملے میں وہ علاقہ متاثر ہوا جس میں نہ صرف ایران کا مرکزی سرکاری میڈیا نیٹ ورک قائم ہے، بلکہ جہاں قطر، عمان اور کویت کے سفارت خانے، اقوام متحدہ کے دفاتر، ایجنسی فرانس پریس کا بیورو، متعدد بین الاقوامی دفاتر، ایک پولیس ہیڈکوارٹر اور اسپتال بھی واقع ہیں۔
اسرائیلی حملے کا ہدف واضح طور پر ایران کا میڈیا نیٹ ورک تھا، جسے اسرائیل طویل عرصے سے ایرانی حکومت کے پروپیگنڈے کا ذریعہ قرار دیتا آیا ہے۔
اس کارروائی سے صرف چند گھنٹے قبل اسرائیلی وزیر دفاع، یوآف گیلنٹ نے خبردار کیا تھا کہ تہران میں ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ پر حملہ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ "ایرانی اشتعال انگیزی کا بلند آواز میگا فون” جلد خاموش کر دیا جائے گا۔ اسی انتباہ کے تناظر میں قریبی رہائشی علاقوں کو بھی پیشگی طور پر خالی کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
واقعے کی وڈیو فوٹیج اور مناظر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو گئے، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح حملے کے نتیجے میں IRIB کی عمارت میں شدید آگ بھڑک اٹھی۔
ایک کلپ میں حملے کا وہ لمحہ بھی ریکارڈ ہوا ہے جب لائیو نشریات کے دوران اچانک میزائل عمارت سے ٹکراتا ہے۔ اس وقت میزبان سحر امامی براہِ راست ایک پروگرام پیش کر رہی تھیں اور کیمرے کے سامنے موجود تھیں۔ حملے کے بعد لائیو نشریات اچانک منقطع ہو گئیں۔
ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے فوری طور پر اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے اسے براہ راست اسرائیل کی کارروائی قرار دیا ہے۔
اگرچہ ابھی تک سرکاری سطح پر جانی نقصان کی حتمی تعداد جاری نہیں کی گئی، لیکن مقامی رپورٹس میں متعدد ہلاکتوں اور زخمیوں کی اطلاع دی جا رہی ہے۔
لندن میں قائم ایران انٹرنیشنل ٹی وی چینل کے مطابق، حملے کے کچھ دیر بعد اسلامی جمہوریہ ایران براڈکاسٹنگ نے ایک متبادل سٹوڈیو سے اپنی نشریات دوبارہ شروع کیں، اور متاثرہ میزبان سحر امامی بھی لائیو کوریج میں واپس شامل ہو گئیں۔
اس اقدام نے ایرانی میڈیا کی ہنگامی بحالی کی صلاحیت کو اجاگر کیا، تاہم اس واقعے نے ملکی سلامتی اور میڈیا پر حملے جیسے سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے فارسی زبان میں سوشل میڈیا پر ایک پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا کہ "آنے والے گھنٹوں میں اسرائیلی افواج اس علاقے میں ایک آپریشن انجام دیں گی۔”
یہ بیان حملے سے کچھ دیر پہلے شائع ہوا تھا، جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ یہ کارروائی پہلے سے طے شدہ اور منصوبہ بند تھی۔
اس فضائی حملے نے نہ صرف ایران کے سرکاری میڈیا کو نشانہ بنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عالمی سفارتی ضوابط، بین الاقوامی قانون، اور شہری آبادی کی حفاظت جیسے حساس پہلوؤں پر بھی گہری تشویش پیدا کی ہے۔
چونکہ حملہ ایک ایسے علاقے میں کیا گیا جو بین الاقوامی دفاتر اور سفارت خانوں سے گھرا ہوا ہے، اس لیے اس کے نتائج صرف ایران تک محدود نہیں بلکہ علاقائی کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔
مبصرین اس حملے کو اسرائیل کی جانب سے ایران کے خلاف جاری دباؤ کی ایک نئی اور جارحانہ قسط قرار دے رہے ہیں۔
ایک طرف ایران کے جوہری پروگرام، میزائل ٹیکنالوجی اور مشرق وسطیٰ میں موجود اس کے اتحادیوں پر اسرائیلی تشویش مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، تو دوسری جانب ایران کے داخلی ادارے بھی اب براہِ راست نشانہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔