وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ایک ایسے وژن کا اظہار کیا گیا جس کا مقصد پاکستان کے سمندری وسائل کو مکمل طور پر بروئے کار لاتے ہوئے معیشت کی نئی راہیں تلاش کرنا اور بحری شعبے کو ملک کی مجموعی ترقی کا ایک محرک بنانا ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس 2025 (PIMEC-2025) کی سافٹ لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے نجی اور سرکاری شعبے کے درمیان مزید قریبی تعاون پر زور دیا تاکہ سمندری معیشت کو ایک مؤثر قومی اقتصادی قوت میں بدلا جا سکے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک 1000 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی اور اہم عالمی بحری راستوں کے سنگم پر واقع ہے، جو اسے "بلیو اکانومی” یعنی نیلی معیشت کے امکانات کے لحاظ سے منفرد مقام عطا کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس عالمی سطح پر کھربوں ڈالر مالیت کی بلیو اکانومی سے صرف ایک معمولی حصہ بھی حاصل کر لیں تو یہ ہماری معیشت کے لیے ایک انقلابی قدم ہو گا۔
وزیراعظم نے کہا، "ہمارا ساحلی تجارتی حجم پہلے ہی ہر سال تقریباً 7 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اگر ہم اس شعبے کو مکمل طور پر ترقی دیں تو یہ ایک بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔
” انہوں نے پاکستان نیوی اور میری ٹائم افیئرز کی وزارت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان اداروں کی حکمتِ عملی، منصوبہ بندی اور سنجیدگی اس انقلابی اقدام کے پیچھے اصل قوت ہے۔
تقریب کے دوران وفاقی وزیر برائے میری ٹائم افیئرز محمد جنید انور چوہدری نے سمندری معیشت کے فروغ کے لیے حکومت کا طویل المدتی منصوبہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے ’Maritime at 100‘ وژن کا اعلان کیا جو کہ سن 2047 تک اس شعبے کو 100 ارب ڈالر مالیت کی اقتصادی طاقت میں بدلنے کا ہدف رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، "سمندر صرف پانی کے ذخیرے نہیں بلکہ اقتصادی زندگی کی علامت ہیں، اور پاکستان کو ایک علاقائی بحری مرکز بننے کے لیے اپنی حیثیت کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔”
بحریہ کے اسسٹنٹ چیف آف نیول اسٹاف کموڈور احسن علی خان نے بھی خطاب میں کہا کہ دنیا بھر میں سمندر اب صرف آمد و رفت یا ماہی گیری تک محدود نہیں رہے بلکہ یہ سیاحت، قابلِ تجدید توانائی، آبی زراعت (aquaculture)، اور تیل و معدنیات جیسی قیمتی قدرتی دولت کے حصول کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
ان کے مطابق، پاکستان کے لیے یہ ایک غیر معمولی موقع ہے کہ وہ ان شعبوں میں سرمایہ کاری اور ترقی کے ذریعے اپنی اقتصادی خودمختاری کو مزید مستحکم کرے۔
تقریب کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے سفیر رضا امیری مقدم سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں موجودہ علاقائی صورتحال، خصوصاً ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق، وزیراعظم نے ایران پر ہونے والے حالیہ اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
انہوں نے کہا کہ بے گناہ ایرانی شہریوں کی شہادت پر پاکستان کو گہرا دکھ ہے اور ہم اس آزمائش کی گھڑی میں ایرانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
شہباز شریف نے واضح الفاظ میں کہا کہ اسرائیلی اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور ان پر فوری طور پر عالمی برادری کو ردعمل دینا چاہیے۔
وزیراعظم نے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکین سے ٹیلی فون پر بات کی ہے اور اس گفتگو میں پاکستان نے ایرانی مؤقف کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران کے ساتھ مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کیا، اور اقوامِ عالم پر زور دیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات نہ صرف علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ عالمی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں، خاص طور پر توانائی اور بحری تجارت جیسے شعبے متاثر ہو سکتے ہیں۔
پوری تقریب کے دوران وزیراعظم اور دیگر مقررین کا مرکزی پیغام یہی تھا کہ سمندری معیشت پاکستان کا ایک ایسا شعبہ ہے جسے اگر سنجیدگی، حکمتِ عملی اور اشتراک سے ترقی دی جائے تو یہ نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گا بلکہ پاکستان کو علاقائی بحری طاقت میں بھی بدل سکتا ہے۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب کا اختتام اس بات پر کیا کہ حکومت سمندری معیشت کو نئی جہت دینے کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائے گی، اور نجی شعبے، صوبائی حکومتوں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر "بلیو اکانومی” کو حقیقت کا روپ دے گی۔