واشنگٹن/تل ابیب: امریکی سیاست ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہے۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام پر سابق انٹیلی جنس سربراہ تولسی گیبرڈ کے بیان کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کر دیا ہے۔ گیبرڈ نے دعویٰ کیا تھا کہ تہران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا، لیکن ٹرمپ نے اسے "غلط فہمی” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایران جوہری دہانے پر کھڑا ہے
جی سیون اجلاس سے واپسی پر صدارتی طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مجھے اس کی بات کی کوئی پروا نہیں، ایران جوہری بم کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے ایران کے خلاف برق رفتار حملے کر کے ایرانی سائنسدانوں، جوہری مراکز اور میزائل تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس اقدام کو "خطرے کی فوری نوعیت” کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیاکہ اگر ایران کو نہ روکا گیا تو وہ چند مہینوں میں جوہری بم تیار کر سکتا ہے
نیتن یاہو کے مطابق ہم نے اتنا افزودہ یورینیم دیکھا ہے جو کم از کم نو ایٹمی بم بنانے کے لیے کافی ہے۔
ٹرمپ کے اس جارحانہ موقف نے امریکی سیاسی حلقوں میں تقسیم پیدا کر دی ہے۔ "میگا” تحریک کے معروف چہرے جیسے ٹکر کارلسن اور اسٹیو بینن اس پالیسی کو کھلی جنگی مہم قرار دے چکے ہیں۔
تاہم ٹرمپ کے نائب صدارتی امیدوار جے ڈی وینس نے وضاحت دی ہےصدر ٹرمپ صرف امریکی مفاد میں طاقت استعمال کریں گے۔ انہوں نے ایران کے معاملے پر گہری بصیرت حاصل کی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تولسی گیبرڈ اس ساری گہماگہمی کے دوران خاموش ہیں۔ ذرائع کے مطابق انہیں ایران پر کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی حساس مشاورت میں شامل بھی نہیں کیا گیا۔
ادھر امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی سالانہ "تھریٹ اسیسمنٹ رپورٹ” بھی عندیہ دے چکی ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر پر جوہری پروگرام کی بحالی کے لیے اندرونی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
کیا دنیا ایک نئے جوہری بحران کے دہانے پر ہے؟کیا ٹرمپ کی پیشگوئی ایک نیا مشرق وسطیٰ تشکیل دے گی؟اور کیا تولسی گیبرڈ کی خاموشی ایک نئی سیاسی کہانی کی تمہید ہے؟فی الحال سوالات بہت ہیں جوابات وقت دے گا