تہران/واشنگٹن/یروشلم: مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر خطرناک حد تک کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی قیادت کی جانب سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قتل کی دھمکیوں کے بعد، ایران نے انتہائی سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے دشمنوں کو خبردار کر دیا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے منگل کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک دھواں دار بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہاکہ ایران، دہشتگرد صیہونی ریاست کے خلاف بھرپور طاقت سے کارروائی کرے گا۔ صیہونیوں سے کسی قسم کی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دشمن کیا سوچ رہے ہیں، اور ہم اس کا جواب اپنی زبان میں دیں گے
ٹرمپ کی زہرآلود دھمکی کہ ہمیں معلوم ہے خامنہ ای کہاں ہیں۔ایرانی ردعمل سے کچھ ہی دیر پہلے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان جاری کیا جس نے عالمی سطح پر ہنگامہ برپا کر دیا۔ ٹرمپ نے کہا:
ہمیں علم ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کہاں موجود ہیں۔ وہ ایک آسان ہدف ہیں، لیکن ہم نے ابھی انہیں مارنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ ایران کو مکمل سرینڈر کرنا ہوگا، اور امریکہ کو ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا مکمل اور حقیقی خاتمہ درکار ہے، مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے۔
اس تمام صورتحال کے پس منظر میں ایک اور تہلکہ خیز انکشاف بھی منظر عام پر آیا ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق اسرائیلی حکومت نے خامنہ ای کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے اس اقدام پر ویٹو لگا دیا۔ اگرچہ اسرائیل نے اس پر باضابطہ تبصرہ نہیں کیا، مگر خطے میں سیاسی درجہ حرارت میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔
عالمی برداری کی خاموشی تشویشناک ہے،جہاں تہران، تل ابیب اور واشنگٹن میں ایک دوسرے کو زبانی گولہ باری کا سامنا ہے، وہیں اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتیں اس معاملے پر تاحال خاموش نظر آتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اس کشیدگی کو فوری طور پر کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ پورے مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئے جنگی محاذ میں تبدیل کر سکتی ہے۔
کیا آنے والے دنوں میں خطے کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا جا رہا ہےسوال تو یہی ہے، لیکن جواب ابھی دھواں اور دھمکیوں میں گم ہے۔