مشرق وسطیٰ ایک بار پھر ممکنہ بڑے تنازع کی دہلیز پر کھڑا ہے، جہاں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ کے روز اپنے ایک سخت اور غیرلچکدار بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو واضح پیغام دیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی قیمت پر واشنگٹن کے غیرمشروط ہتھیار ڈالنے کے مطالبات کو قبول نہیں کرے گا۔
سرکاری ایرانی ٹیلی وژن پر نشر کیے گئے پیغام میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ایران ایک خوددار، تاریخی طور پر باوقار اور مزاحمت کی علامت قوم ہے، جسے خوف، دباؤ یا دھمکیوں سے جھکایا نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے کسی بھی عسکری کارروائی کی صورت میں نتائج نہایت سنگین اور ناقابلِ تلافی ہوں گے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی فضائیہ نے تہران پر ایک بڑا فضائی حملہ کیا ہے، جس میں اسرائیلی فوج کے مطابق 50 سے زائد جنگی طیاروں نے مختلف مقامات پر تقریباً 20 تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
ان اہداف میں مبینہ طور پر ایران کی میزائل ٹیکنالوجی سے متعلقہ مراکز، پرزہ جات بنانے کی فیکٹریاں، اور را مٹیریل کے گودام شامل تھے۔
اس اچانک حملے کے بعد تہران میں صورتحال سخت کشیدہ ہو چکی ہے۔ شہری خوف اور بے یقینی کے عالم میں دارالحکومت سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ سڑکوں پر شدید ٹریفک جام اور ایندھن کی کمی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
شہریوں کو ہنگامی بنیادوں پر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے کی ہدایات دی جا رہی ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب علی بحرینی نے جنیوا میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا کہ تہران اسرائیل کی کارروائیوں میں امریکہ کو برابر کا شریک سمجھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ہم نے واشنگٹن کو باضابطہ طور پر خبردار کر دیا ہے کہ اگر امریکہ نے براہ راست کوئی بھی فوجی قدم اٹھایا، تو ایران کا ردعمل فوری، شدید اور فیصلہ کن ہو گا۔‘‘
ایرانی قیادت کے سخت مؤقف کے باوجود، واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامیہ ایران پر ممکنہ کارروائی کے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ ایک اعلیٰ امریکی مشیر کے مطابق، صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم اس وقت اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا جائے یا نہیں۔ اس ممکنہ منصوبے میں نہ صرف خفیہ آپریشن بلکہ کھلی فوجی مداخلت کے امکانات بھی زیرِ بحث ہیں۔
امریکی صدر نے ایک روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ ایران پر حملہ ان کا آخری آپشن ہو گا، تاہم اگر ایران نے خطے میں "غیر ذمہ دارانہ حرکتیں” جاری رکھیں، تو امریکہ اس پر خاموش نہیں رہے گا۔ ان کا یہ بیان خطے میں جاری کشیدگی کو مزید بڑھا رہا ہے۔
اس سے قبل آیت اللہ خامنہ ای نے جمعے کے روز اپنی ایک نشری تقریر میں کہا تھا کہ نہ تو ایران پر جنگ زبردستی تھوپی جا سکتی ہے اور نہ ہی امن مسلط کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایرانی قوم اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی وقار کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ، اسرائیل یا ایران میں سے کسی ایک فریق نے مزید اشتعال انگیزی کی تو مشرق وسطیٰ ایک ایسی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے جو خلیج سے نکل کر عالمی سطح پر سلامتی، توانائی، اور سفارتی توازن کو بری طرح متاثر کرے گی۔
اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور متعدد عالمی طاقتیں اس صورتحال کو انتہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں اور فریقین سے تحمل اور مذاکرات کی اپیل کر رہی ہیں۔تاہم اب تک کسی بھی جانب سے کشیدگی کم کرنے کے واضح اشارے نہیں ملے۔