جنوبی ایشیا میں حالیہ کشیدگی کے خاتمے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی پر مختلف بیانیے ابھر کر سامنے آ رہے ہیں، جن میں ایک جانب بھارتی مؤقف ہے جبکہ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کی اعلیٰ ترین سطح سے جاری کردہ وضاحت میں اس تاثر کو یکسر مسترد کیا گیا ہے کہ جنگ بندی کسی بیرونی مداخلت یا ثالثی کا نتیجہ تھی۔
انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وِکرم مسری نے بدھ کے روز ایک بیان میں واضح کیا کہ رواں سال مئی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جو چار روزہ جھڑپیں ہوئیں، ان کے بعد جنگ بندی دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان براہِ راست رابطے کے ذریعے طے پائی۔
ان کا کہنا تھا کہ "یہ عمل دونوں افواج کے روایتی فوجی چینلز کے ذریعے ہوا اور اس میں کسی بیرونی ثالث کا کوئی کردار نہیں تھا۔”
وِکرم مسری کے مطابق، وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان 14 مئی کی شب ایک ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا۔
اس گفتگو کے دوران بھارتی وزیراعظم نے امریکی صدر کو تفصیل سے آگاہ کیا کہ جنگ بندی کسی بین الاقوامی ثالثی یا امریکی مداخلت کا نتیجہ نہیں، بلکہ عسکری سطح پر براہ راست بات چیت سے ممکن ہوئی۔
یہ وضاحت اس تناظر میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 10 مئی کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ذاتی طور پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی ختم کروائی اور دونوں جوہری ممالک کو ممکنہ جنگ سے باز رکھا۔
صدر ٹرمپ کے مطابق، ان کی فون کالز اور تجارتی سفارتکاری نے دونوں ممالک کو تصادم سے روکا۔
تاہم بھارت کی جانب سے یہ مؤقف ہمیشہ سے برقرار رہا ہے کہ وہ کسی تیسرے ملک کی ثالثی کو قبول نہیں کرتا، خصوصاً پاکستان کے ساتھ دوطرفہ معاملات میں۔
وکرم مسری نے اس بات پر زور دیا کہ "وزیراعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو بالکل صاف انداز میں بتایا کہ نہ تو جنگ بندی کے دوران اور نہ ہی اس کے بعد، انڈیا-امریکہ تجارت یا پاکستان کے ساتھ کسی ثالثی پر کوئی گفتگو ہوئی۔”
ذرائع کے مطابق، مئی کے پہلے ہفتے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جھڑپیں اُس وقت شروع ہوئیں جب انڈیا نے 22 اپریل کو کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا۔
اس کے بعد 7 مئی کو انڈین فضائیہ نے پاکستانی شہروں پر محدود حملے کیے، جس سے صورتحال سنگین ہوگئی۔ ان جھڑپوں کا سلسلہ چار دن تک جاری رہا، جس کے بعد دونوں ممالک نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی۔
پاکستانی ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے کہ انڈین فوج نے اپنی افواج کے ذریعے رابطہ قائم کیا تھا، جس کے نتیجے میں فائر بندی پر اتفاق ممکن ہوا۔
اگرچہ امریکی صدر اس جنگ بندی میں اپنی مداخلت کا دعویٰ کرتے رہے ہیں، لیکن زمینی حقائق کچھ اور داستان بیان کرتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ جی سیون سربراہی اجلاس کے موقع پر کینیڈا میں انڈین وزیراعظم کی امریکی صدر سے ملاقات طے تھی، تاہم مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ہونے والی اچانک کشیدگی کے باعث صدر ٹرمپ کو اجلاس سے قبل وطن واپس جانا پڑا اور یہ ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔
وِکرم مسری کے مطابق، اس مجوزہ ملاقات کا مقصد بھی باہمی تجارت اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال تھا، نہ کہ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی پر کوئی گفت و شنید۔
دوسری طرف، وائٹ ہاؤس نے فی الحال اس تمام صورتحال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، اور نہ ہی ٹرمپ کے دعوؤں کی تصدیق یا تردید کی ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ، جو خطے میں ہمیشہ سے ایک غیرعلانیہ ثالث کے طور پر خود کو پیش کرتا رہا ہے، اس بار بھارتی مؤقف کے سامنے خاموش نظر آ رہا ہے۔