واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو حیران کر دینے والی بات کہہ دی،اگر پاکستان کے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نہ ہوتے، تو شاید جنوبی ایشیا آج ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں ہوتا۔
یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب وہ وائٹ ہاؤس میں جنرل منیر کو دیے گئے خصوصی ظہرانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ اس ملاقات کو امریکی میڈیا اور بین الاقوامی تجزیہ کار "غیر معمولی” قرار دے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ انھوں نے جنرل منیر کو بھارت اور پاکستان کے مابین ممکنہ جنگ کو روکنے میں "کلیدی کردار” ادا کرنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس مدعو کیا۔ اوول آفس میں گفتگو کرتے ہوئے صدر کا کہنا تھا، یہ دو ذہین افراد (جنرل منیر اور وزیراعظم مودی) تھے جنہوں نے ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ کی آگ کو بجھایا۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جنرل منیر سے ایران کے حالیہ حالات پر "کھل کر” بات ہوئی۔ اُن کے بقول وہ ایران کو دوسروں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ وہ خوش نہیں ہیں جو ہو رہا ہے، لیکن وہ صورتحال کو گہرائی سے سمجھتے ہیں۔
یاد رہے کہ جنرل عاصم منیر نے حالیہ دورۂ تہران میں ایرانی افواج کے سربراہ جنرل محمد حسین باقری سے ملاقات کی تھی، جو 13 جون کے اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔ اس پس منظر میں جنرل منیر کا امریکی صدر سے ایران پر بات کرنا ایک اہم سفارتی اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
پاکستان کو "اعزاز” کا مقام مل گیا؟سوشل میڈیا پر اس ملاقات نے دھوم مچا دی ہے۔ صارفین نے طنز و مزاح اور فخر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میمز شیئر کرنا شروع کر دیے۔ ایک میم میں ٹرمپ کو میکڈونلڈ کے کچن میں دکھایا گیا ہے، جیسے وہ جنرل منیر کے لیے خود کھانا بنا رہے ہوں
ایک صارف نے لکھاپاکستان کو ایسی عزت شاید 1947 کے بعد پہلی بار ملی ہے۔
اس حوالےسےصحافی شجاع نواز نے لکھا کہ یہ ملاقات امریکی پالیسی کے توازن میں تبدیلی کا اشارہ ہو سکتی ہے۔ جبکہ مبصر محمد تقی نے سوال اٹھایا کہ فائدہ کس کو ہوا؟ لیکن نقصان اُن پاکستانی امریکیوں کا ضرور ہوا جو واشنگٹن میں پی ٹی آئی کے لیے لاکھوں ڈالر لابی پر خرچ کر بیٹھے۔
ٹرمپ کا لہجہ بدلا ہوا۔عام طور پر غیر سنجیدہ یا جارحانہ بیانات دینے والے ڈونلڈ ٹرمپ اس بار حیران کن طور پر نرمی، سنجیدگی اور توازن کا مظاہرہ کرتے نظر آئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ فیلڈمارشل جنرل عاصم منیر کی موجودگی نے صدر کا لہجہ بدل دیا۔ کئی صارفین کا ماننا ہے کہ پاکستانی جنرل نے ایران کے حوالے سے ایسا مضبوط مؤقف پیش کیا کہ ٹرمپ کو نہ صرف سننا پڑا بلکہ سمجھنا بھی پڑا۔
کیا آنے والے دنوں میں امریکہ ایران سے جنگ کرے گا؟
صدر ٹرمپ سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اسرائیلی حملوں میں شریک ہوں گے، تو ان کا جواب تھاشاید ہاں، شاید نہ۔۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنے والا ہوں۔” اور ایرانی حکومت کی تبدیلی کے بارے میں ان کا مختصر تبصرہ تھا: "یقیناً، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہے نا؟”
جنرل منیر کی واشنگٹن میں موجودگی نہ صرف پاکستان کی سفارتی ساکھ کے لیے سنگِ میل ہے بلکہ ایک ایسے وقت میں ہوئی جب دنیا مشرقِ وسطیٰ میں نئی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔اگر یہ دورہ خالصتاً شکریہ ادا کرنے کے لیے تھا، تو یہ شکریہ سفارت کاری کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔