تہران:یروشلم اور تہران کے درمیان کشیدگی ایک نئے اور خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تازہ بیان میں اسرائیل کی امریکا سے مدد کی اپیل کو براہِ راست صیہونی ریاست کی کمزوری اور خوف قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب دشمن میدان سے نکلنے لگے اور اپنے سرپرستوں کو آواز دیں، تو یہ ان کی شکست کی واضح علامت ہوتی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کا یہ سخت اور حوصلہ افزا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگی فضا مزید شدت اختیار کر چکی ہے۔ ایرانی میزائل حملوں نے اسرائیلی دفاعی نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا خاص طور پر بیلسٹک میزائلز اور سجیل ٹو جیسے جدید ہتھیاروں کے استعمال نے اس حملے کو ایران کی جانب سے اب تک کا سب سے بڑا حملہ بنا دیا ہے، جسے خود اسرائیل نے بھی تسلیم کیا ہے۔
صیہونی حکومت کے امریکی دوست اب خود منظر پر نمودار ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے واشنگٹن کی دہلیز پر جا کر مدد مانگی ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ دشمن اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایرانی عوام کو اپنے طرزِ عمل سے دنیا کو یہ دکھانا ہوگا کہ وہ نہ صرف دشمن سے خوف زدہ نہیں، بلکہ ہر محاذ پر ثابت قدم اور بیدار ہیں۔
گزشتہ روز ایران نے ایک منظم انداز میں اسرائیلی اہداف پر بیلسٹک میزائل برسائے، جس میں جدید ترین سجیل-2 میزائل بھی استعمال کیا گیا، یہ میزائل ایران کے جدید دفاعی پروگرام کی علامت سمجھے جاتے ہیں، اور اپنی رفتار، حدِ پرواز اور تباہ کن صلاحیت کے باعث اسرائیلی حکمت عملی کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق کئی اسرائیلی شہروں میں سائرن بجنے لگے، پناہ گاہیں بھر گئیں، اور عوام میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہو گئی۔ یہ وہ منظر تھا جس نے اسرائیلی عوام کو باور کرایا کہ خطے میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔
اس تمام تر صورت حال کے دوران امریکی حکام کی اسرائیل سے بڑھتی ہوئی قربت اور مداخلت کا عندیہ دینا بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ خامنہ ای کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اس اتحاد کو ایک ڈھلتی ہوئی طاقت کا مظہر سمجھتا ہے، نہ کہ مضبوطی کا۔
اسرائیل کے خلاف ایرانی موقف میں مزاحمت، خود اعتمادی اور جارحانہ سفارتی پیغام نظر آتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کا بیان صرف ایک ردِ عمل نہیں بلکہ ایک اعلان ہے کہ خطے کی قوتیں اب خود مختار فیصلے کر رہی ہیں، اور خوف کی بجائے جرأت کی زبان بول رہی ہیں۔
یہ بیانیہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل بلکہ عالمی سفارتی منظرنامے میں بھی ایک بڑی تبدیلی کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ کشیدگی مذاکرات کے میز پر جاتی ہے یا میدانِ جنگ میں مزید شدت اختیار کرتی ہے۔