تل ابیب : مشرق وسطیٰ میں جاری ایران اسرائیل تنازع ایک ایسے نکتے پر پہنچ چکا ہے جہاں سائنس، تحقیق اور انسانیت بھی زد پر آ چکی ہے۔ اسرائیل کے عالمی شہرت یافتہ وائزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس پر ایرانی میزائل حملے نے نہ صرف جدید سائنسی تجربہ گاہوں کو خاکستر کر دیا بلکہ برسوں کی تحقیق اور امیدوں کو بھی راکھ بنا دیا۔
یہ حملہ اتوار کی صبح سویرے تل ابیب کے جنوبی مضافاتی علاقے ریہووٹ میں واقع انسٹی ٹیوٹ کے کیمپس پر ہوا، جہاں میزائل گرنے سے ایک عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی جبکہ کئی دیگر کو شدید نقصان پہنچا۔ عمارتوں کی دیواریں زمیں بوس ہو گئیں، دھاتیں مڑ گئیں اور ہر طرف دھماکہ خیز ملبے اور کالک سے لپٹا کنکریٹ بکھرا پڑا تھا۔ خوش قسمتی سے، کیمپس رات کے وقت خالی ہونے کے باعث کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
حیرت انگیز مناظر اس وقت دیکھنے کو ملے جب انسٹی ٹیوٹ کے محققین آگ، دھویں اور ملبے کے باوجود اپنی لیبارٹریوں میں واپس گئے تاکہ قیمتی سائنسی نمونے بچا سکیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر اور ماہر طبیعیات رائے اوزیری نے کہاکہ
جب ہم آگ بجھانے کی کوشش کر رہے تھے، ہم نے اپنی ساری توانائی اس پر لگا دی کہ لیبارٹریوں سے جتنا ہو سکے بچا لیں
اگرچہ انسٹی ٹیوٹ کی بیشتر تحقیق طب، جینیات اور فلکیات جیسے سائنسی شعبوں سے متعلق ہے، لیکن اس کا دفاعی تحقیق سے بھی تعلق ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں اس نے اسرائیل کی سب سے بڑی دفاعی کمپنی Elbit کے ساتھ حیاتیاتی طور پر متاثر مواد پر مشترکہ تحقیقی منصوبہ شروع کیا تھا۔
ایرانی میزائل حملے میں پروفیسر الداد تزاہور جیسے محققین کا کام بھی مکمل طور پر تباہ ہو گیا، جو بالغ دل کی بیماریوں کے لیے دوبارہ پیدا کرنے والی ادویات پر تحقیق کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا:
بہت سے نمونے اور ٹشوز، جن پر ہم مہینوں بلکہ برسوں سے کام کر رہے تھے، مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ سب کچھ کھو گیا۔ ہمیں دوبارہ یہ سب ترتیب دینے میں ایک سال لگے گا۔”
انسٹی ٹیوٹ نے مادی نقصان کا تخمینہ 300 سے 500 ملین ڈالر کے درمیان لگایا ہے۔ تحقیق میں استعمال ہونے والی پیچیدہ مشینیں، جو ایک سے زیادہ لیبارٹریوں میں مشترکہ طور پر استعمال ہوتی تھیں، اب ملبے کا حصہ بن چکی ہیں۔ یعقوب حنا، جو ایمبریونک سٹیم سیل سائنس پر کام کرتے ہیں، نے بتایا کہ ان کی لیب کی چھت گر گئی، سیڑھیاں ٹوٹ گئیں، مگر ان کے طلبہ نے سینکڑوں منجمد انسانی و چوہے کے خلیاتی نمونے بچا لیے اور انہیں تہہ خانے میں رکھے گئے نائٹروجن ٹینکوں میں منتقل کر دیا۔
میں ہمیشہ ڈرتی تھی کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو ہم ان قیمتی نمونوں کو کھو دیں گے،یعقوب حنا، سائنسی جریدہ نیچر سے گفتگو کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئی
1934 میں قائم ہونے والا وائزمین انسٹی ٹیوٹ دنیا کے ممتاز ترین تحقیقی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس میں 286 ریسرچ گروپس، 191 فیکلٹی ممبران، اور سیکڑوں ماسٹرز، پی ایچ ڈی، اور پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچرز موجود ہیں۔ ادارہ جینیات، امیونولوجی، فلکی طبیعیات، اور مالیکیولر بایولوجی جیسے اہم سائنسی شعبوں میں ریسرچ کرتا ہے، اور دنیا بھر کی سائنسی برادری میں اسے عالمی معیار کا مرکز مانا جاتا ہے۔
مگر اب، یہ ادارہ سائنس کی ترقی کا استعارہ کم اور جنگ کی تباہی کا نشان زیادہ بن چکا ہے۔