اسلام آباد: پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے پہلی بار کھل کر اعتراف کیا ہے کہ ملک اس وقت مکمل جمہوریت کے بجائے ایک ’’ہائبرڈ ماڈل‘‘ کے تحت چل رہا ہے، جس میں سویلین اور عسکری قیادت اقتدار کی شراکت میں شریک ہیں۔
غیرملکی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ مثالی جمہوری نظام نہیں، لیکن ’’کمال کا کام‘‘ کر رہا ہے۔ ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر، جو حالیہ تنازع کے بعد فیلڈ مارشل کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں، امریکہ کے دورے پر تنہا صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر چکے ہیں۔
وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کی غیر موجودگی میں یہ ملاقات اس حقیقت کو مزید نمایاں کرتی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی، معاشی ترجیحات اور علاقائی فیصلوں میں فوج کا کردار غیر معمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔ خواجہ آصف نے اس نظام کو ’’عملی ضرورت‘‘ قرار دیا اور کہا کہ جب تک ملک معاشی اور انتظامی بحرانوں سے باہر نہیں نکلتا، تب تک یہ ماڈل جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے فوج اور منتخب حکومت کے درمیان ہم آہنگی کو ملک کی ترقی کے لیے مثبت قرار دیا اور تسلیم کیا کہ اگر 1990 کی دہائی میں یہی ماڈل اپنایا گیا ہوتا تو جمہوریت زیادہ مستحکم ہوتی۔
وزیر دفاع کے مطابق، فوج اور حکومت اب ایک ہی میز پر فیصلے کرتی ہیں، جیسا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں بڑی سرمایہ کاری، معاشی اصلاحات اور تزویراتی فیصلے مشترکہ طور پر لیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف تمام فیصلے خود کرتے ہیں، اور اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت باقاعدہ ادارہ جاتی دائرے میں رہ کر ہوتی ہے۔ ان کے مطابق، "ہمارے درمیان آج تک ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا جب فیصلے باہمی اتفاق سے نہ ہوئے ہوں۔
آئی ایس پی آر نے اس پر کسی ردعمل سے گریز کیا، لیکن وزیر دفاع کا یہ کھلا اعتراف نہ صرف پاکستان کی سیاسی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ آنے والے دنوں میں جمہوریت، فوجی اثر و رسوخ اور اقتدار کی حرکیات پر ایک نئی بحث کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ خواجہ آصف نے امید ظاہر کی کہ ایک دن پاکستان کو وہ خالص جمہوریت ضرور حاصل ہوگی، جس کا خواب اس کے عوام برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔