نئی دہلی/اسلام آباد: جنوبی ایشیا میں پانی کے مسئلے پر کشیدگی ایک بار پھر سر چڑھ کر بولنے لگی ہے، جب انڈیا کے طاقتور وزیر داخلہ امت شاہ نے اعلان کیا کہ نئی دہلی سندھ طاس معاہدے کی بحالی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور پاکستان جانے والے پانی کا رخ اب راجستھان کی جانب موڑ دیا جائے گا۔
ہفتے کو ٹائمز آف انڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امت شاہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا یہ معاہدہ کبھی بحال نہیں ہوگا، پاکستان کو وہ پانی نہیں ملے گا جو وہ ناجائز طور پر لے رہا تھا۔
امت شاہ کے اس بیان نے نہ صرف اسلام آباد بلکہ عالمی سفارتی حلقوں میں بھی ہلچل مچا دی ہے، کیونکہ 1960 میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیا میں آبی امن کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے فوری ردعمل کے لیے رابطے کی تصدیق کی ہے، جبکہ اسلام آباد ماضی میں کئی بار واضح کر چکا ہے کہ معاہدے سے یک طرفہ دستبرداری بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور "جنگی اقدام” کے مترادف ہوگی۔
حالیہ کشیدگی کا آغاز انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں 26 شہریوں کی ہلاکت سے ہوا، جس کا الزام نئی دہلی نے اسلام آباد پر عائد کیا۔ اسی الزام کو بنیاد بنا کر انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کو "معطل” کیا اور چھ تا سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے مختلف علاقوں پر فضائی حملے کیے، جن میں فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی میں انڈیا کے چھ جنگی طیارے، بشمول تین رفال، مار گرانے کا دعویٰ کیا۔ اس کشیدگی نے جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا، جس کے بعد 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے سیزفائر ممکن ہوئی۔
تاہم سیزفائر کے باوجود سندھ طاس معاہدہ بدستور معطل ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کے زرعی شعبے کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے، جو ملک کے 80 فیصد زرخیز رقبے کو انڈیا سے نکلنے والے دریاؤں سے پانی کی فراہمی کا ضامن تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اس معاہدے کو پاکستان کے لیے "سرخ لکیر” قرار دے چکے ہیں، اور انتباہ کر چکے ہیں کہ "انڈیا کو پانی بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی۔”
امت شاہ کے حالیہ بیانات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مودی حکومت سندھ طاس معاہدے کو سیاسی اور سٹریٹجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کر رہی ہے، جو نہ صرف دو طرفہ تعلقات کو مزید بگاڑ سکتی ہے بلکہ پورے خطے کے امن کو بھی داؤ پر لگا سکتی ہے۔