امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی حساس جوہری تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان پر اچانک اور انتہائی جارحانہ فضائی حملے کے بعد نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی لہر دوڑ گئی بلکہ عالمی مالیاتی منڈیوں میں بھی زلزلہ برپا ہو گیا۔ جیسے ہی ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر حملے کی کامیابی کا اعلان کیا، دنیا بھر کے سرمایہ کاروں میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ تیل کی قیمتوں میں اچانک اضافہ شروع ہوا اور محفوظ اثاثہ جات—جیسے سونا اور ڈالر—کی طرف دوڑ لگ گئی۔
’پوٹومیک ریور کیپیٹل‘ کے چیف سرمایہ کاری افسر مارک سپنڈل کے مطابق، منڈیوں پر اس حملے کا فوری اور شدید اثر پڑے گا، خصوصاً تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی اور سرمایہ کار محتاط پوزیشن اختیار کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ “اب امریکی معیشت دنیا بھر میں ایکسپوز ہو چکی ہے، اور بے یقینی کا ایک گہرا سایہ عالمی منڈیوں پر چھا گیا ہے۔”
‘کریڈٹ کیپیٹل’ کے ماہر جیک ابلن نے بھی خبردار کیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں تناؤ کا سیدھا اثر افراط زر پر پڑے گا، اور اگر تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں تو مرکزی بینکوں کو شرح سود میں کٹوتی جیسے اقدامات روکنے پڑ سکتے ہیں، جس سے صارفین کا اعتماد مزید مجروح ہوگا۔
ادھر برینٹ کروڈ آئل کی قیمتیں 79.04 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ پانچ ماہ کی بلند ترین سطح ہے، جبکہ امریکی خام تیل بھی ایک ہفتے میں 10 فیصد مہنگا ہو چکا ہے۔ اگر ایران کا ردعمل سخت ہوا اور وہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے جیسے اقدامات پر چلا گیا تو عالمی معیشت کو زوردار جھٹکا لگنے کا امکان ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں تیل کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے—جو کہ دنیا بھر میں مہنگائی کی ایک نئی لہر کو جنم دے گی۔
’بی ریلی ویلتھ‘ کے چیف سٹریٹیجسٹ ہوگن نے انتباہ دیا ہے کہ اگر اسرائیلی حملے ایران کی تیل فراہمی متاثر کرتے ہیں تو عالمی مارکیٹ گراوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ ان کے مطابق تیل کی اصل قیمت پر اس حملے کے اثرات ابھی مکمل طور پر ظاہر نہیں ہوئے، لیکن صورتحال منفی رخ اختیار کر سکتی ہے۔
ادھر ’آکسفورڈ اکنامکس‘ نے تین ممکنہ منظرنامے وضع کیے ہیں: پہلا، تنازعے میں کمی؛ دوسرا، ایرانی تیل کی پیداوار کی مکمل بندش؛ اور تیسرا، آبنائے ہرمز کی بندش، جس کے نتائج دنیا بھر کی منڈیوں پر تیز رفتار اثر ڈال سکتے ہیں۔ سب سے خطرناک صورتِ حال میں تیل 130 ڈالر فی بیرل تک جا سکتا ہے، جو امریکی افراطِ زر کو بھی بلند کر دے گا۔
’ہیرس فنانشل گروپ‘ کے پارٹنر جیمی کاکس نے اگرچہ ابتدائی قیمتوں کے اضافے کی پیش گوئی کی ہے، مگر وہ سمجھتے ہیں کہ اگر طاقت کے اس مظاہرے کے نتیجے میں ایران کسی امن معاہدے کی طرف آتا ہے تو منڈیاں واپس استحکام کی طرف جا سکتی ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کے دوران امریکی ڈالر کو بھی ملا جلا ردعمل ملا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر کشیدگی طویل ہوتی ہے تو ڈالر مزید مستحکم ہو سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی عالمی معیشت کے لیے دباؤ بھی بڑھے گا۔
اقتصادی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر صورتحال جلد نہ سنبھلی تو سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوگا، عالمی معیشت کمزور پڑے گی اور مالیاتی پالیسیوں کے لیے ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔ اگرچہ تاریخ میں دیکھا گیا ہے کہ جنگی کشیدگی کے بعد منڈیاں کسی حد تک بحال ہو جاتی ہیں، لیکن اس بار غیر یقینی کے بادل زیادہ گہرے دکھائی دے رہے ہیں۔