پاکستانی معیشت ایک بار پھر ڈالر کی تنگی کے باعث نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ انٹربینک مارکیٹ سے لے کر اوپن مارکیٹ تک، ہر طرف ایک ہی فضا ہے، غیر یقینی، دباؤ اور بے چینی، کرنسی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی شدید قلت نے روپے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، جس کے اثرات صرف کاروباری حلقوں تک محدود نہیں بلکہ عام شہریوں کی جیبوں تک پہنچ چکے ہیں۔
بینک اب ترسیلات زر کے عوض سرکاری نرخ سے 1 تا 2 روپے زائد پیش کر رہے ہیں تاکہ سمندر پار پاکستانی زیادہ سے زیادہ ڈالر بھیجیں، جبکہ امپورٹرز بنیادی اشیائے ضرورت کی درآمد کے لیے انٹربینک ریٹ سے بھی مہنگا ڈالر خریدنے پر مجبور ہیں۔ جمعہ کو ڈالر 283.70 روپے کی بلند سطح پر بند ہوا، اور اوپن مارکیٹ میں اس کی قیمت 285.70 روپے تک پہنچ چکی ہے۔
ملکی معیشت پر ایک اور کاری ضرب، ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع اور پاکستان و بھارت کے مابین حالیہ جھڑپوں نے غیر یقینی کی ایسی فضا پیدا کر دی ہے کہ سرمایہ کار اور برآمد کنندگان دونوں دفاعی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ برآمد کنندگان اپنی آمدنی مارکیٹ میں لانے سے گریزاں ہیں، جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی دستیابی مزید کم ہو گئی ہے۔
سینیئر معاشی ماہر فیصل میمس کے مطابق اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں اور یوروبانڈز کی پوزیشن بہتر ہو رہی ہے، لیکن مارکیٹ کی نفسیات اس وقت حکومت کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے آئی ایم ایف اہداف کے لیے ڈالر خریدنے کا عمل بھی مارکیٹ میں طلب کو بڑھا رہا ہے۔
دوسری جانب ایکسچینج کمپنیز کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ کے مطابق، اوپن مارکیٹ میں فی الوقت ڈالر دستیاب ضرور ہے، مگر اس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور عالمی غیر یقینی صورتحال، بالخصوص ایران اسرائیل جنگی کشیدگی، اس وقت روپے پر دباؤ کا باعث بنی ہوئی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان عام پاکستانی شہری کو ہو رہا ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ زیادہ تر اشیاء درآمدی ہیں اور مہنگے ڈالر کا براہِ راست اثر ان کی قیمتوں پر پڑ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے، تو روپے کی قدر 290 سے بھی تجاوز کر سکتی ہے اور مہنگائی کا ایک نیا طوفان عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
حکومت کی کوشش ہے کہ آئندہ ایک ماہ میں روپے کو 285 روپے کی سطح پر مستحکم رکھا جائے، تاہم معیشت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے افراد سمجھتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام، عالمی خطرات اور اندرونی معاشی بے ترتیبی کو نظر انداز کر کے کوئی دیرپا حل ممکن نہیں۔
پاکستان اس وقت ایک بار پھر اس مقام پر کھڑا ہے جہاں ڈالر صرف کرنسی نہیں بلکہ قومی سلامتی کا پیمانہ بنتا جا رہا ہے۔ اس بحران پر قابو پانے کے لیے صرف اقتصادی نہیں بلکہ سفارتی اور سیاسی محاذ پر بھی مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ فی الحال، مارکیٹ کی آنکھیں اس سوال پر جمی ہیں: روپیہ بچے گا یا مہنگائی کی آگ سب کچھ جلا دے گی؟