مشرقِ وسطیٰ کی دھڑکن ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے۔ ایران نے وہ کر دکھایا جس کا خدشہ عالمی سطح پر مسلسل ظاہر کیا جا رہا تھا قطر میں واقع امریکی العدید ایئر بیس کو چھ بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہی فوجی اڈہ ہے جو نہ صرف امریکا کا خطے میں سب سے بڑا اسٹریٹیجک مرکز سمجھا جاتا ہے بلکہ کئی اہم عسکری مشنوں کی منصوبہ بندی بھی یہیں سے ہوتی ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق یہ کارروائی "آپریشن بشارتِ فتح” کے تحت کی گئی، جس کا مقصد امریکی بمباری کا "برابر طاقت سے” جواب دینا بتایا گیا۔ ایران نے واضح کیا کہ حملے میں وہی تعداد میں بم استعمال کیے گئے جتنے امریکا نے چند روز قبل ایران کی جوہری تنصیبات پر گرائے تھے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایرانی حکام نے حملے سے قبل قطر کو پیشگی آگاہ کر دیا تھا تاکہ جانی نقصان کو روکا جا سکے۔ اسی تناظر میں قطری وزارت خارجہ نے فوری اقدامات کرتے ہوئے امریکی اڈے کو خالی کرایا اور فضائی دفاعی نظام کو متحرک کیا، جس کے ذریعے کم از کم ایک میزائل کو فضاء ہی میں تباہ کر دیا گیا۔
قطر نے حملے کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اس حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں اور اپنے دفاع کا پورا حق رکھتے ہیں۔ قطر کا یہ موقف خطے میں اس کی غیر جانبدار پالیسی سے ایک نئی سمت میں اشارہ کر رہا ہے۔
ادھر عراق میں موجود امریکی عین الاسد بیس پر بھی دفاعی نظام فعال کر دیا گیا ہے اور اہلکاروں کو بنکروں میں منتقل ہونے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، حالانکہ فی الوقت وہاں کسی حملے کی تصدیق نہیں ہوئی۔ امریکی ذرائع ابلاغ، خصوصاً نیویارک ٹائمز نے بھی ایرانی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے قطر کو پیشگی اطلاع دے کر انسانی نقصان کو ٹالا، جو ایک "سیاسی و سفارتی چال” بھی ہو سکتی ہے۔
ایران کی یہ کارروائی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب خطہ پہلے ہی امریکا، اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ ایران نے واضح پیغام دیا ہے کہ اگر اس پر حملہ کیا جائے گا تو جواب صرف الفاظ میں نہیں، بلکہ بارود کے گرجدار پیغام کے ساتھ دیا جائے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حملہ محض عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک سفارتی پیغام اور خطے میں طاقت کے توازن کو چیلنج کرنے کی حکمتِ عملی بھی ہے۔ اسرائیل اور امریکا کے بڑھتے روابط، اور ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی کوششوں کے تناظر میں، یہ واقعہ ایک ممکنہ بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔