تہران کی فضا اس ہفتے سوگوار ہے، جہاں ایران کے عوام، اعلیٰ فوجی حکام اور مذہبی قیادت ایک عظیم قومی المیے پر متحد ہو رہے ہیں۔ ہفتہ کے روز تہران یونیورسٹی سے آزادی چوک تک ایک بڑے جنازے کا انعقاد کیا جائے گا، جو اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے اعلیٰ ترین فوجی کمانڈرز اور جوہری سائنسدانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہوگا
یہ قومی جنازہ صرف چند افراد کا نہیں، بلکہ ایران کے وقار، دفاع اور سائنسی ترقی پر کیے گئے حملے کی علامت بن چکا ہے۔ 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے بلااشتعال فضائی حملے کیے گئے، جن کا ہدف ایران کی جوہری تنصیبات، عسکری مراکز اور عام شہری علاقے تھے۔ ان ظالمانہ حملوں میں 600 سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں ایران کی فوجی قیادت کے وہ ستون بھی شامل تھے، جنہوں نے دہائیوں تک ملکی دفاع کو مضبوط رکھا۔
شہید ہونے والوں میں چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد حسین باقری، IRGC کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی، خاتم الانبیاء ہیڈکوارٹر کے کمانڈر میجر جنرل غلام علی رشید، ایرو اسپیس فورس کے سربراہ میجر جنرل امیر علی حاجی زادہ اور متعدد ممتاز جوہری سائنسدان شامل ہیں۔
ان حملوں کے ردعمل میں ایران نے "ٹریو پرومس III” نامی ایک طاقتور جوابی آپریشن شروع کیا، جس کے تحت 22 مرحلوں میں اسرائیلی مقبوضہ علاقوں پر میزائل حملے کیے گئے۔ ان حملوں سے اسرائیلی انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا، کئی فوجی تنصیبات تباہ ہوئیں اور درجنوں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے، جس کے بعد اسرائیل کو جنگ بندی کی اپیل کرنا پڑی۔
شہید کمانڈر حسین سلامی اور ان کے دفتر کے سربراہ جنرل مسعود شنیعی کی تدفین جمعرات کو ان کے آبائی شہر گلپایگان میں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی جائے گی، جبکہ ہفتہ کو تہران میں ہونے والا جنازہ عالمی سطح پر ایک مضبوط سیاسی پیغام بن کر ابھرے گا کہ ایران اپنے شہداء کو فراموش نہیں کرتا، اور اس کے دفاعی حوصلے کسی حملے سے پست نہیں ہوتے۔