مشرقِ وسطیٰ میں جاری حالیہ کشیدگی پر امریکی سینٹرل کمان کے سابق سربراہ جنرل جوزف فوٹیل کا کہنا ہے کہ امریکی فضائی حملوں کے نتیجے میں ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کی عسکری طاقت کو شدید دھچکا پہنچا ہے، جو امریکہ کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک کامیابی ہے۔
العربیہ انگلش کو دی گئی خصوصی انٹرویو میں جنرل فوٹیل نے اعتراف کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا براہِ راست کارروائی کا فیصلہ نہایت خطرناک تھا، مگر اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق ایران کے خلاف امریکی اور اسرائیلی حملے انتہائی درست اور طاقتور تھے، جنہوں نے نہ صرف تہران کو حیران کر دیا بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک سخت پیغام بھیجا کہ امریکہ اپنی پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
یہ کشیدہ صورتحال 12 دن تک جاری رہی جس میں اسرائیل نے ایرانی فوجی و جوہری تنصیبات، میزائل لانچنگ پلیٹ فارمز اور اعلیٰ کمانڈرز کو نشانہ بنایا۔ جواباً ایران نے اسرائیل پر میزائل و ڈرون حملے کیے، جبکہ امریکی فضائیہ نے ایران کے فوردو، نطنز اور اصفہان میں واقع جوہری تنصیبات پر شدید بمباری کی۔
ایران نے جوابی کارروائی میں قطر اور عراق میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا، تاہم ان حملوں میں جانی نقصان نہیں ہوا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ جھڑپیں خطے میں طاقت کا توازن بدلنے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔ جنرل فوٹیل کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل کی یہ کارروائیاں مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی اسٹریٹیجک حقیقت کی بنیاد رکھ رہی ہیں، اور اس کا اثر صرف ایران یا اسرائیل تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ پورے خطے کے جغرافیائی اور سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرے گا۔
صدر ٹرمپ کے اچانک فائر بندی کے اعلان نے وقتی طور پر جنگی صورتحال کو روک دیا، تاہم مبصرین اسے ایک عارضی وقفہ قرار دے رہے ہیں، کیونکہ خطے میں کشیدگی کی جڑیں اب بھی برقرار ہیں