محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے کمر کس لی ہے۔
اس سلسلے میں وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں سکیورٹی سے جڑے تمام کلیدی اداروں اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
اجلاس کا بنیادی مقصد محرم کے دوران کسی بھی قسم کی بدامنی، فرقہ واریت یا اشتعال انگیزی کو روکنے کے لیے ٹھوس اور مؤثر حکمت عملی ترتیب دینا تھا۔
اس اجلاس میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری، وفاقی سیکریٹری داخلہ، قائم مقام چیئرمین سی ڈی اے، کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری، اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر، ڈی آئی جی اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئی جیز، پنجاب اور سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرلز، اور دیگر اہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندگان ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔
اجلاس میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے سکیورٹی انتظامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے دوران خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا کہ مذہبی تعصبات کو ہوا دینے اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والے افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی، خاص طور پر وہ عناصر جو سوشل میڈیا کا استعمال نفرت انگیزی کے لیے کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا گیا، اور اس ضمن میں سائبر کرائم و دیگر متعلقہ اداروں کو مکمل متحرک رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے واضح کیا کہ محرم الحرام کے دوران امن و امان کا قیام اولین ترجیح ہو گی، اور اس مقصد کے لیے تمام فیصلے بین الصوبائی مشاورت اور اتفاقِ رائے سے کیے جائیں گے۔
اس حوالے سے انٹرنیٹ یا موبائل فون سروس کی ممکنہ بندش جیسے حساس معاملات پر بھی صوبوں سے مشورہ لے کر حتمی فیصلے کیے جائیں گے تاکہ عوامی سہولت اور سکیورٹی میں توازن قائم رکھا جا سکے۔
محسن نقوی نے ہدایت دی کہ تمام جلوسوں اور مجالس کی نگرانی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کی جائے، اور ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی شخص یا گروہ ایسا مواد یا بیانیہ نہ پھیلائے جو اشتعال انگیزی کا باعث بنے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی قسم کی شرانگیزی اور نفرت پھیلانے والے اقدامات کو فوری طور پر روکنے کے لیے تیار رہیں۔
اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ سکیورٹی پلان پر مؤثر عمل درآمد کے لیے وفاق اور صوبوں کے درمیان قریبی رابطہ اور ہم آہنگی ضروری ہو گی، اور ہر سطح پر معلومات کے تبادلے اور حالات کی نگرانی کا مربوط نظام قائم کیا جائے گا۔
حکومت نے نہ صرف سکیورٹی کے انتظامات کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر نظر رکھنے والے اداروں کو بھی فعال کردار ادا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو ہر صورت برقرار رکھا جا سکے۔