ریاض میں سعودی وزارت خارجہ کے صدر دفتر میں ایک اہم سفارتی ملاقات ہوئی جس میں مشرق وسطیٰ کی سیاست کے ایک اہم موضوع، شام کی صورتحال، پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔اس ملاقات میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے امریکہ کے شام کے لیے خصوصی ایلچی ٹوم باراک کا خیرمقدم کیا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں خطے کی موجودہ صورتِ حال، باہمی دلچسپی کے امور اور شام کی بحالی کے امکانات پر سنجیدہ اور مفصل تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات کے دوران توجہ کا محور شام میں جاری تنازعات کے خاتمے، امن و امان کی بحالی اور معاشی استحکام کے امکانات رہے۔
دونوں فریقین نے شام میں سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ شام کے عوام کو ایک پائیدار اور محفوظ مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
خاص طور پر معاشی بحالی کے عمل کو تیز کرنے، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور انسانی ضروریات کی فراہمی کے حوالے سے حکمت عملی پر بات چیت کی گئی۔
سعودی وزیر خارجہ نے امریکی ایلچی کو باور کرایا کہ مملکت شام کے مسئلے کے پرامن حل کے لیے عالمی برادری کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ شام کی خودمختاری، سالمیت اور استحکام کے لیے سعودی عرب ہر ممکن سفارتی اور انسانی امداد فراہم کرنے کو تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مضبوط اور خود مختار شام نہ صرف شامی عوام بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
امریکی ایلچی ٹوم باراک نے سعودی حکومت کی شام سے متعلق مثبت کوششوں اور علاقائی ہم آہنگی کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن، شام میں دیرپا سیاسی حل کے حصول کے لیے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے۔
ٹوم باراک نے شام کی بحالی کے عمل میں سعودی عرب کے ممکنہ کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ مملکت کی سفارتی حیثیت، خطے میں اس کی ساکھ اور وسائل شام کے لیے ایک مستحکم مستقبل کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب شام، ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط خانہ جنگی کے بعد بتدریج بحالی کی طرف گامزن ہے۔ شام میں کئی علاقوں میں اب بھی بدامنی اور بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔
عالمی ادارے اور علاقائی طاقتیں انسانی بحران کے خاتمے اور شامی عوام کی معمول کی زندگیوں کی طرف واپسی کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے شام کی سیاسی پیش رفت، امن مذاکرات کی موجودہ صورتحال، اور عالمی تنظیموں کی مداخلت کے اثرات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
خاص طور پر اقوام متحدہ کے کردار اور عرب لیگ کی حالیہ سرگرمیوں کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا۔ سعودی عرب کی یہ کوشش رہی ہے کہ شام کو دوبارہ عرب ممالک کی صف میں مکمل طور پر شامل کیا جائے تاکہ خطے میں اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔
ملاقات کے آخر میں دونوں ممالک نے شام کے حوالے سے قریبی رابطے اور مشترکہ لائحہ عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ یہ عزم ظاہر کیا گیا کہ شام کے عوام کے دکھوں کا مداوا صرف اجتماعی کاوشوں، سفارتی حکمت عملی اور تعمیری تعاون سے ہی ممکن ہے۔