ایران نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ اپنے تعاون کو باضابطہ طور پر معطل کرنے کی جانب ایک اہم قدم اٹھایا ہے، جس کے بعد عالمی سطح پر ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یہ فیصلہ ملک کے طاقتور آئینی ادارے گارڈین کونسل نے اس مجوزہ قانون کی منظوری دے کر کیا ہے، جس کے تحت ایران اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے اس جوہری نگران ادارے کے ساتھ کسی بھی قسم کے معائنہ جاتی یا تکنیکی اشتراک سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
گارڈین کونسل کے ترجمان، ہادی طہان نازیف، کے مطابق یہ قانون اب حتمی منظوری کے لیے نو منتخب ایرانی صدر، مسعود پزشکیان، کو بھیجا گیا ہے تاکہ وہ اس پر دستخط کر کے اسے باضابطہ قانون بنا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ایران کی خودمختاری کے تحفظ اور اس کے جوہری حقوق، خصوصاً یورینیم کی افزودگی جیسے حساس معاملات میں، علاقائی سالمیت کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔
اس پیش رفت سے چند دن قبل آئی اے ای اے نے ایران پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ اپنی جوہری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مسلسل ناکام ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں ادارے نے ایک سخت قرارداد منظور کی۔
اس قرارداد میں ایران کے تعاون نہ کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مزید شفافیت اور رسائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تاہم اب ایران کی جانب سے عالمی ادارے کے ساتھ تعاون کے دروازے بند ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو ایران کی اہم جوہری تنصیبات، جن میں فردو، اصفہان اور نطنز شامل ہیں، تک رسائی ممکن نہیں رہے گی۔
یہ وہی تنصیبات ہیں جن پر چند روز قبل، اتوار کے دن، امریکہ نے فضائی حملے کیے تھے۔ ان حملوں کے بعد ایران کے جوہری ذخائر، خصوصاً 400 کلوگرام کے انتہائی افزودہ یورینیم، کے مقام کے بارے میں کئی قیاس آرائیاں جنم لے چکی ہیں۔
سیٹلائٹ تصاویر، جو امریکی حملوں سے کچھ وقت قبل لی گئی تھیں، میں فردو جوہری پلانٹ کے باہر درجنوں گاڑیوں کی لمبی قطار دکھائی دی تھی۔
اس منظر نے ماہرین کے درمیان یہ نظریہ پیدا کیا کہ ممکنہ طور پر ایران نے ان گاڑیوں کو اپنے حساس جوہری مواد کو کسی خفیہ مقام پر منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا۔
ان خدشات نے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ کہیں ایران نے اپنے جوہری اثاثوں کو امریکی حملے سے محفوظ رکھنے کے لیے وقت سے پہلے منتقل نہ کر دیا ہو۔
دوسری جانب، امریکی حکومت نے ان خدشات کو رد کر دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے جمعرات کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ فردو کے اندر موجود کوئی مواد نکالا نہیں گیا، اور جو گاڑیاں وہاں دیکھی گئیں، وہ دراصل تعمیراتی کام کرنے والے مقامی مزدوروں کی تھیں۔
پیٹ ہیگستھ نے مزید کہا کہ ان کے پاس موجود خفیہ انٹیلیجنس رپورٹس میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا جو یہ ظاہر کرے کہ ایران نے اپنے افزودہ یورینیم کو کسی اور مقام پر منتقل کیا ہے۔ ان کے بقول، "جو کچھ وہاں تھا، وہیں موجود ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔”