سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف اور امریکہ و برطانیہ میں سابق سفیر، شہزادہ ترکی الفیصل نے ایک بار پھر عالمی دوہرے معیار، اسرائیل کی جارحیت، اور مغرب کی خاموشی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح اور تاریخی مؤقف اختیار کیا ہے۔
اپنے تازہ کالم میں شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ اگر دنیا واقعی انصاف پر مبنی ہوتی تو آج امریکی B2 بمبار طیاروں کے بنکر بسٹر بم اسرائیلی جوہری تنصیبات پر برس رہے ہوتے، جیسا کہ ایران کے خلاف کیا گیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اسرائیل نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) پر دستخط ہی نہیں کیے اور بین الاقوامی ایجنسیوں نے کبھی اس کی تنصیبات کا معائنہ نہیں کیا، لیکن اس کے باوجود اسے مکمل چھوٹ حاصل ہے
شہزادہ ترکی نے کہا کہ مغرب ایران پر حملے کو اس کے قائدین کے اسرائیل مخالف بیانات سے جوڑتا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو 1996 سے ایرانی حکومت کی تباہی کے مطالبے کرتا رہا ہے۔ انہوں نے ایران پر امریکی حملے کو مغرب کے دوہرے معیار کا تسلسل قرار دیا اور خبردار کیا کہ عراق و افغانستان جیسے نتائج ایران کے معاملے میں بھی سامنے آئیں گے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ مغرب کے لیڈر امن، انصاف اور اصولوں کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ان کے عمل بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ تاہم شہزادہ ترکی نے مغرب کے عوام کو سراہا جنہوں نے فلسطینی عوام کی آزادی کی حمایت میں اپنی قیادت سے اختلاف کیا اور عالمی سطح پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک خطے میں امن کے خواہاں ہیں، جبکہ اسرائیل اور اس کے حامی جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔
آخر میں شہزادہ ترکی الفیصل نے اپنے عظیم والد، شہید شاہ فیصل بن عبدالعزیز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جیسے اُنہوں نے امریکی صدر ہیری ٹرومین کے اسرائیل کے قیام میں کردار کے باعث امریکہ کا دورہ ترک کر دیا تھا، ویسے ہی میں اُس وقت تک امریکہ کا دورہ نہیں کروں گا جب تک ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سے رخصت نہیں ہو جاتے۔
انہوں نے کہا: "انسانیت کے احترام کے بغیر امن ممکن نہیں۔ اگر دنیا کو واقعی امن درکار ہے تو اسے دوہرے معیار ترک کرنا ہوں گے۔