سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے ملکی معیشت کے بوم اینڈ بسٹ سائیکل سے متعلق غلط فہمیوں پر دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2018 سے 2022 کے معاشی اتار چڑھاؤ کا تعلق نہ کم شرح سود سے تھا، نہ روزمرہ اشیاء کی درآمدات سے، بلکہ اصل محرک عالمی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی قیمتیں تھیں۔
گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ شرح سود کو جان بوجھ کر بلند رکھ کر معیشت کو کنٹرول کرنے کی پالیسی ایک سنگین غلط فہمی پر مبنی ہے، جس کے نتیجے میں آج 50 فیصد سے زائد بجٹ صرف قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے، اور ملکی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ 2018 میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 37 ارب ڈالرز تک پہنچا، جو سی پیک منصوبوں کی درآمدات، کمزور برآمدات اور ترسیلات زر میں کمی کا نتیجہ تھا۔ جبکہ 2021-22 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.4 ارب ڈالرز ریکارڈ کیا گیا، جس پر کورونا ویکسین کی درآمدات اور روس-یوکرین جنگ کے اثرات بھی نمایاں رہے۔
گوہر اعجاز نے انکشاف کیا کہ 2022 میں روپے کی قدر 30 فیصد تک گری، جس کے سبب مہنگی توانائی نے پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کو سست روی کا شکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بوم اینڈ بسٹ سائیکل کو سمجھنے کے لیے ہمیں بین الاقوامی اقتصادی محرکات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔