اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایروانی نے واضح کیا ہے کہ موجودہ عالمی حالات میں ایران اور امریکہ کے درمیان بات چیت کے لیے سازگار ماحول نہیں ہے۔ امریکی چینل "سی بی ایس” سے بات کرتے ہوئے ایروانی نے کہا، ہم امریکہ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن موجودہ حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ ایران پر اپنی شرائط مسلط کرنے کی کوشش کرے گا تو مذاکرات ممکن نہیں ہو پائیں گے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس بات پر زور دیا کہ یورینیم کی افزودگی ہر صورت میں جاری رہے گی۔
ایروانی نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر رافیل گروسی کو کسی بھی قسم کے خطرے سے صاف انکار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ایجنسی کے معائنہ کار ایرانی جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ ایران کے مطابق، عالمی جوہری ادارے کو جب تک اس کی شرائط کے مطابق رسائی نہیں دی جاتی، تب تک اس کے معائنے کے لیے کوئی مذاکرات ممکن نہیں۔
اس دوران ایران اور اسرائیل کے درمیان 13 جون سے شروع ہونے والی جنگ نے بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کیا۔ یہ جنگ 12 دن تک جاری رہی، جس دوران اسرائیل نے ایران کی عسکری اور جوہری تنصیبات کو بمباری کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کئی ایرانی فوجی افسران اور جوہری سائنسدان ہلاک ہو گئے۔ ایران نے اسرائیلی علاقوں پر جوابی میزائل اور ڈرون حملے کیے، جس کے بعد امریکہ بھی براہ راست مداخلت میں آیا۔
21 جون کو امریکی فضائیہ نے ایران کی تین جوہری تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان پر فضائی حملے کیے۔ ایران نے اس کے جواب میں قطر اور عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا، تاہم ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ 24 جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک جنگ بندی کا اعلان کیا، جس کے بعد اس تنازعے میں تناؤ کی شدت میں کمی آئی۔
جنگ کے آغاز سے ہی ایران نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس نے اسرائیلی اور امریکی حملوں کی مذمت نہیں کی۔ اس کے جواب میں 25 جون کو ایرانی پارلیمنٹ نے ایجنسی کے ساتھ تعاون کو معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا، جو ایران کی عالمی جوہری ادارے کے حوالے سے موقف کی ایک اہم تبدیلی تھی