واشنگٹن : امریکہ میں معاشی پالیسیوں اور حکومتی اخراجات کے حوالے سے جاری بحث نے اس وقت شدت اختیار کر لی جب دنیا کے سب سے بااثر صنعت کاروں میں شمار ہونے والے ایلون مسک اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام ایک دوسرے پر تنقید کرتے نظر آئے۔ اس بار معاملہ نہ صرف سیاسی میدان تک محدود رہا بلکہ براہِ راست معاشی پالیسی، بجٹ اور قومی خزانے سے وابستہ سبسڈی جیسے حساس موضوعات پر جا پہنچا ہے۔
صدر ٹرمپ نے منگل کے روز اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر ایک سخت بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے ایلون مسک اور ان کی کمپنیوں خصوصاً ٹیسلا، اسپیس ایکس اور اسٹارلنک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ مسک کی کامیابی کا بڑا سہرا سرکاری سبسڈیوں کے سر ہے، جن کے بغیر وہ نہ راکٹ چلا سکتے ہیں، نہ برقی گاڑیاں بنا سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ الیکٹرک گاڑیاں اچھی ہو سکتی ہیں، لیکن امریکی عوام پر انہیں زبردستی مسلط کرنا غیر منصفانہ ہے۔ انہوں نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مسک کی کمپنیوں کو دی جانے والی مالی امداد کا ازسرِ نو جائزہ لے تاکہ اربوں ڈالر کی بچت ممکن ہو سکے۔
صدر ٹرمپ کی اس شدید تنقید کا جواب ایلون مسک نے براہِ راست نام لیے بغیر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ (سابق ٹوئٹر) پر ایک سلسلہ وار پیغامات کے ذریعے دیا۔ انہوں نے دو ٹوک کہا کہ میری کمپنیوں کو دی جانے والی تمام سرکاری امداد ابھی بند کر دی جائے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
مسک کا کہنا تھا کہ جو لوگ انہیں سبسڈی لینے کا طعنہ دیتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل خطرہ حکومت کی بے لگام فضول خرچی ہے، جو ملک کو اقتصادی تباہی کے دہانے پر لے جا سکتی ہے۔
ایلون مسک نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ کے قرض کی حد (Debt Ceiling) پر بھی سخت مؤقف اپنایا۔ انہوں نے لکھا کہ قرض کی حد کوحکومت کے غیر ذمہ دارانہ اخراجات اور دھوکہ دہی کو روکنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہے
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہر بار قرض بڑھا دیا جائے تو پھر اس قانون کی کوئی افادیت باقی نہیں رہ جاتی ہے،انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے مالی نظم و ضبط اختیار نہ کیا تو امریکہ دیوالیہ ہو سکتا ہےاور یہی ان کی سب سے بڑی تشویش ہے۔
یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکی سیاست میں بجٹ بل، قرض کی حد میں اضافہ اور سرکاری اخراجات جیسے مسائل پر غیر معمولی تناؤ پایا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کی حکومت نے حال ہی میں ایک بڑا بجٹ بل پیش کیا ہے جس میں ٹیکس کٹوتیاں، فوجی اخراجات اور بارڈر سیکیورٹی جیسے نکات شامل ہیں۔
ایلون مسک نے اس بل کو "فضول خرچی سے بھرا ہوا اور معاشی خودکشی” قرار دیا ہے۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ اگر یہ بل منظور ہوا تو وہ ایک نئی سیاسی جماعت "America Party” کی بنیاد رکھیں گے، تاکہ "مڈل کلاس اور ذمہ دار شہریوں کی نمائندگی کی جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کھلا تصادم مستقبل میں نہ صرف ٹرمپ کی انتخابی مہم کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ ایلون مسک کی کمپنیوں کو بھی ریگولیٹری دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کشیدگی نے امریکی معیشت کے استحکام، کاروباری پالیسیاں، اور واشنگٹن میں طاقت کے توازن کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔