مدینہ منورہ کی سرزمین نہ صرف تاریخی اور روحانی لحاظ سے عظیم اہمیت رکھتی ہے، بلکہ یہاں کی قدرتی چٹانیں اور پتھر بھی اپنی پائیداری اور خصوصیات کے اعتبار سے صدیوں سے تعمیراتی ورثے کا حصہ رہے ہیں۔
ان چٹانوں میں سیاہ بیسالٹ اور گرینائٹ سرفہرست ہیں، جو کہ اپنی حرارت جذب کرنے کی خاصیت اور مضبوط ساخت کی بدولت قدیم دور سے لے کر آج تک تعمیراتی منصوبوں میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔
یہ پتھر اپنی نوعیت میں اس قدر خاص ہے کہ گرمیوں کے موسم میں یہ بیرونی درجہ حرارت کو اندر جذب کر لیتا ہے، جس سے عمارتوں کا اندرونی ماحول نسبتی طور پر ٹھنڈا اور معتدل رہتا ہے۔
یہی خصوصیت ان پتھروں کو صرف تعمیری ضرورت کے بجائے ایک قدرتی تھرمل ریگولیٹر بھی بناتی ہے، جو ماحول دوست اور توانائی کی بچت کا ذریعہ ہے۔
مدینہ طیبہ میں اس پتھر کا استعمال آج بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ مسجد نبوی ﷺ کے اطراف میں جہاں تزئینی اور توسیعی کام جاری رہتے ہیں، وہیں ان علاقوں میں اس سیاہ گرینائٹ اور بیسالٹ کو انتہائی مہارت سے استعمال کیا گیا ہے تاکہ قدیم طرز تعمیر کا حسن اور جدید ضرورتوں کا امتزاج قائم رکھا جا سکے۔
اس پتھر کا استعمال صرف عبادت گاہوں تک محدود نہیں، بلکہ مدینہ کے مختلف مقامات، گلیوں، سیاحتی علاقوں اور پیدل چلنے والے راستوں پر بھی اس کو خوبصورتی سے نصب کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف جدید منصوبوں میں، جہاں تاریخی شناخت کو قائم رکھنا مقصود ہو، وہاں بھی یہ پتھر بڑی مہارت سے استعمال ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ چٹانی مادہ نہ صرف اپنی پائیداری، مضبوطی اور ظاہری خوبصورتی کے لیے مشہور ہے، بلکہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید دلکش ہوتا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اسے دوبارہ مرمت یا تزئین کی ضرورت کم ہی پیش آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ کے متعدد پرانے مقامات کی تجدید میں یہی مادہ اولین انتخاب سمجھا جاتا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی (SPA) کے مطابق، مدینہ میں جاری ترقیاتی منصوبے اس پتھر کے استعمال کو مستقبل کی منصوبہ بندی کا لازمی جزو تصور کر رہے ہیں تاکہ نہ صرف فن تعمیر کی روایت قائم رکھی جا سکے، بلکہ شہر کی روحانی و جمالیاتی شناخت کو بھی برقرار رکھا جائے۔
یقیناً مدینہ منورہ کی سرزمین پر موجود یہ چٹانی خزانے صرف تعمیراتی مواد نہیں، بلکہ تاریخ، ثقافت اور فطرت کا حسین امتزاج بھی ہیں، جو نسلوں تک اس شہر کی عظمت اور خوبصورتی کا استعارہ بنے رہیں گے۔