سیشن عدالت کراچی نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست ابتدائی سماعت پر ہی مسترد کرتے ہوئے اسے ناقابلِ سماعت قرار دے دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ ویانا کنونشن 1961 کے تحت ریاستی سربراہان کو قانونی استثنیٰ حاصل ہے، اور کسی غیر ملکی صدر کے خلاف پاکستان میں مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔
درخواست گزار جمشید علی خواجہ کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایران میں بمباری کے باعث لاکھوں پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، اور وہ صرف مقدمہ درج کرانا چاہتے ہیں، گرفتاری یا سزا کا مطالبہ نہیں۔ ان کے وکیل جعفر عباس جعفری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانونی دفعات واضح ہیں اور ہم نے عدالت کو مکمل طریقے سے مطلع کیا ہے کہ مقدمہ قابلِ سماعت ہے۔
تاہم سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ درخواست بدنیتی پر مبنی ہے اور صرف سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "بم گرا ایران میں، اور مقدمہ درج کرانا چاہتے ہیں پاکستان میں؟” عدالت کو بتایا گیا کہ اس قسم کی درخواستوں سے ملک کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کے قانونی نظام کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا۔ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کے قانونی نظام کی بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگی کا مظہر ہے بلکہ ایک واضح پیغام بھی ہے کہ عدالتیں قانونی اصولوں سے ماورا ہو کر کوئی قدم نہیں اٹھاتیں۔