حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک خاموش مگر معنی خیز تبدیلی نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ڈیجیٹل فضا میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
متعدد پاکستانی سوشل میڈیا صارفین اور معروف کنٹینٹ کریئیٹرز نے یہ اطلاع دی ہے کہ ان کے اکاؤنٹس، جو ایک طویل عرصے سے بھارتی سرزمین پر محدود یا مکمل طور پر بلاک تھے، اب دوبارہ انڈین صارفین کے لیے قابلِ رسائی ہو چکے ہیں۔
یہ بات سب سے پہلے اس وقت منظر عام پر آئی جب جولائی کے آغاز پر کچھ مشہور پاکستانی یوٹیوبرز، انسٹاگرامرز اور تبصرہ نگاروں نے اپنے سوشل میڈیا پر نوٹیفکیشنز کی تصاویر شیئر کیں، جن میں بتایا گیا کہ ان کا اکاؤنٹ اب انڈیا میں دوبارہ دکھائی دے رہا ہے۔
ان پیغامات میں یہ وضاحت موجود تھی کہ پہلے جو پابندی مقامی قوانین یا حکومت کی درخواست پر لگائی گئی تھی، وہ اب یا تو ختم ہو چکی ہے یا واپس لے لی گئی ہے۔
ایسے نوٹیفکیشنز پاکستانی انفلوئنسرز مریم راجہ اور حمزہ بھٹی کی جانب سے انسٹاگرام پر عوامی طور پر شیئر کیے گئے، جس کے بعد مزید نامور شخصیات نے بھی اس قسم کی اطلاعات دینا شروع کیں۔
ان تبدیلیوں کے پیچھے کی وجوہات اگرچہ تاحال سرکاری سطح پر واضح نہیں کی گئیں، مگر سوشل میڈیا پر اس پیش رفت نے صارفین، مبصرین اور دونوں ممالک کے عوامی ذہنوں میں مختلف سوالات کو جنم دیا ہے۔
انڈیا میں اس خبر پر ملے جلے ردِعمل دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ کئی صارفین نے اپنی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ آیا یہ پابندیاں واقعی قومی سلامتی کی بنیاد پر لگائی گئی تھیں یا محض سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی تھیں۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستانی فنکاروں، یوٹیوب چینلز اور میڈیا اداروں پر پابندیاں صرف وقتی جذبات یا سیاسی دباؤ میں آ کر لگائی گئیں تو پھر یہ ایک جمہوری ریاست کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
ایک بھارتی صارف نے طنزیہ انداز میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا حب الوطنی کا بیانیہ صرف دو مہینوں کے لیے تھا؟ اور کیا سوشل میڈیا کے ذریعہ ظاہر کی گئی "قومی غیرت” صرف کرکٹ یا مخصوص واقعات تک محدود ہے؟
جون 2024 میں پیش آنے والے پہلگام واقعے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد انڈین حکومت نے تیزی سے پاکستانی میڈیا اکاؤنٹس پر پابندیاں لگانا شروع کر دیں۔ ان میں ہم ٹی وی، اے آر وائی ڈیجیٹل اور ہر پل جیو جیسے بڑے یوٹیوب چینلز شامل تھے، جنہیں انڈیا میں بند کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ متعدد فنکاروں جیسے احد رضا میر، یمنہ زیدی، ماورا حسین، دانش تیمور اور اذان سمیع کے انسٹاگرام پروفائلز کو بھی انڈیا میں محدود کر دیا گیا۔
ان اکاؤنٹس پر الزام تھا کہ وہ مبینہ طور پر ایسے مواد کی تشہیر کرتے ہیں جو انڈین ریاستی مفادات کے خلاف ہے یا نفرت انگیز بیانیے کو ہوا دیتے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں غیرمنصفانہ اور سیاسی قرار دیا۔
پابندیوں کے اس دور میں بہت سے بھارتی صارفین ان پاکستانی اکاؤنٹس تک رسائی کے لیے وی پی این جیسے ذرائع استعمال کرتے رہے۔
یہ اس بات کی علامت تھی کہ پاکستان میں تیار کردہ مواد کی انڈیا میں اب بھی مانگ موجود ہے، چاہے اسے سرکاری طور پر بند کیوں نہ کیا گیا ہو۔ پاکستانی ڈراموں اور تفریحی مواد کو بھارتی ناظرین کی ایک بڑی تعداد دیکھتی رہی، اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ردعمل بھی دیکھنے کو ملتا رہا۔
اب جبکہ متعدد اکاؤنٹس دوبارہ انڈیا میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یا تو انڈین حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کی مدت ختم ہو چکی ہے یا پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے خود ان اکاؤنٹس کا ازسرِ نو جائزہ لینے کے بعد پابندیاں ہٹا دی ہیں۔ ممکن ہے کہ الگورتھم کی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں یا پلیٹ فارمز کی پالیسی اپ ڈیٹس کے نتیجے میں ایسا ہوا ہو۔
چونکہ اب تک نہ میٹا (Meta) اور نہ ہی انڈیا کی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے اس بارے میں کوئی واضح بیان جاری کیا ہے، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ بحالی ایک منظم حکومتی پالیسی کا حصہ ہے یا صرف ٹیکنیکل عمل۔
ادھر پاکستانی اداکار علی رحمان ملک نے اس پیش رفت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انسٹاگرام پر لکھا کہ ان کے اکاؤنٹ پر سے انڈیا میں عائد پابندی ختم کر دی گئی ہے، تاہم ساتھ ہی انہوں نے اس عمل پر سوال بھی اٹھایا کہ آزادی اظہار رائے پر ایسی قدغنیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو زیب دیتی ہیں یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی ریاست میں خیالات اور اظہار کے دروازے بند کر دیے جائیں تو وہ جمہوریت صرف ایک ڈھانچے کا نام بن جاتی ہے۔
اس سارے منظرنامے میں ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات چاہے سیاسی سطح پر کتنے ہی کشیدہ ہوں، عوامی سطح پر رابطے اور ڈیجیٹل مواد کے تبادلے کی طلب برقرار رہتی ہے۔
پاکستانی ڈیجیٹل میڈیا انڈسٹری کے لیے یہ ایک مثبت اشارہ ہے کہ اس کی رسائی دوبارہ انڈیا جیسے بڑے ناظرین کے حلقے تک ممکن ہو رہی ہے۔ اگرچہ تاحال کچھ اہم پاکستانی شخصیات جیسے ماہرہ خان اور فواد خان کے اکاؤنٹس پر پابندیاں برقرار ہیں، تاہم موجودہ تبدیلیاں اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ممکن ہے مستقبل میں مزید نرمی آئے۔
یہ پیش رفت سوشل میڈیا کی اس طاقت کی بھی مظہر ہے جس نے روایتی سفارتی اور سیاسی سرحدوں کو چیلنج کیا ہے۔
اب لوگ محض حکومتوں کے فیصلوں کے پابند نہیں رہے، بلکہ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی مدد سے وہ معلومات اور تفریح تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے میں اگر حکومتیں اپنے عوام کو مخصوص مواد سے دور رکھنے کی کوشش کریں، تو یہ عمل ایک خاص وقت تک ہی مؤثر رہ سکتا ہے۔